سائفر کیس
سائفر کیس کیا ہے
"سائفر کیس" پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ہے۔ ان پر الزام ہے کہ اس نے ایک خفیہ ڈاکومنٹ 'سائفر' کو پبلک کیا اور پھر اس کی کاپی گم کر دی۔ یہ سائفر امریکہ میں موجود پاکستانی سفیر اسد مجید نے بھیجا تھا۔ عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ یہ سائفر درحقیقت امریکی دھمکی تھی۔ عمران خان نے اس سائفر کو اپنی حکومت کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کا ثبوت قرار دیا تھا۔
سائفر کیس کی تفصیلات
معاملہ کی ابتدا
مارچ 2022 میں عمران خان نے ایک عوامی جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر کہا ان کی حکومت کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے اور لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ یہ سائفر امریکہ کی جانب سے بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو ہٹا دیا جائے تو پاکستان کو فائدہ ہوگا ورنہ نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
کیس کی نوعیت
سائفر کے بارے میں اس دعوے کے بعد عمران خان پر الزام لگا کہ انہوں نے قومی سلامتی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی اور حساس کاغذ کو لیک کیا۔ امریکی حکومت، حکومت پاکستان اور فوجی حکام نے عمران خان کے ان دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ سائفر کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
قانونی کاروائی
عمران خان کے خلاف سائفر کیس کے تحت تحقیقات کا آغاز کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا انہوں نے قومی سلامتی کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے یا نہیں۔ ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) اور دیگر متعلقہ ادارے اس کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
کیس کے نتائج
اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو عدالت نے قصور وار پایا اور دونوں کو دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
تاہم اسلام آباد ھائی کورٹ نے انکی یہ سزا کلعدم قرار دیتے ہوئے انکو بری کر دیا۔ [1]
مزید
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ یاد رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج سائفر کیس کی سماعت کے لیے حال ہی میں ملکی تاریخ کی پہلی خصوصی عدالت اسلام آباد میں قائم کی گئی تھی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن چیلنج کیا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا کالعدم قرار دیا جائے۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، رہنما اسد عمر کو سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کرتے ہوئے 19 اگست کو شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا، سابق وزیر خارجہ تاحال اس کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئ۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ دستاویز اس سے موصول ہوئی ہے اور اس سے شائع بھی کیا گیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم نے ان کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اس دستاویز کو عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔
ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیرقانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔
ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔
سائفر کے ساتھ کھلواڑ سے پاکستان امریکہ تعلقات متاثر ہوئے۔ امریکہ نے احتجاج کیا کہ آپ سے ہم آف دی ریکارڈ گفتگو نہیں کر سکتے؟ ہمیں شکایت ہوگی تو ہم سفیر سے ہی کہیں گے پریس کانفرس تو نہیں کرینگے۔ جس پر آپ نے پورا تماشا بنا دیا۔ یہ پبلک کے لیے تھا جس سے عمران خان نے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
امریکہ نے اس کے بعد پاکستان سے سفارتی بات چیت کچھ عرصہ روک دی تھی۔ وزات خارجہ نے عمران خان کو ایڈوائزری نوٹ بھی بھیجا تھا کہ یہ ہمارے لیے بہت پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔ [2]
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا جو بھی سائفر دنیا بھر سے موصول ہوتا ہے اس کی جو کاپیاں ریاست کے جن اہم لوگوں کو بھیجی جاتی ہیں وہ تمام اوریجنل ہی ہوتی ہیں جس میں اسے ٹرانسلیٹ کرنے کا سفارتی خفیہ کوڈ موجود ہوتا ہے۔ ریاست کے اہم آفس ہولڈرز پڑھنے کے بعد اسے واپس کرنے یا ختم کرنے کے پابند ہوتے ہیں جس کے بعد دفتر خارجہ ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ اعزاز چوہدری کے مطابق اس طرح کے ہزاروں سائفر اپنی سروس کے دوران انہوں نے وصول کئے یا بھیجے اور یہ ایک معمول کا عمل ہوتا ہے لیکن اسے پبلک کرنے کی نہ اجازت ہوتی ہے اور نہ ایسی مثال موجود ہے۔ اس کے گم کردینے یا چوری ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ [3]
اعظم خان کا بیان
عمران خان کے پرنسپل سیکٹری اعظم خان نے دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ 'عمران خان نے تمام تر حقائق چھپا کر سائفر کو جھوٹا اور بےبنیاد بیانیہ بنایا۔ منع کرنے کے باؤجود ایک سیکرٹ مراسلہ عوام کے سامنے لہرایا۔ تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے سائفر کو بیرونی سازش کا رنگ دیا۔ '[4] اعظم خان نے تقریباً وہی بیان دیا جو گفتگو اسکی لیک ہونے والی کال میں تھی۔
دیگر
سائفر کے معاملے میں عمران خان کے خلاف 28 گواہ تیار ہوگئے ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کے معاملے میں جو گڑبڑ ہوئی ہے وہ عمران خان نے کی ہے۔ ان مین اعظم خان بھی شامل ہیں۔ اس میں مبینہ طور پر شاہ محمود قریشی بھی پھنسے گا اور ایک دو اور لوگ بھی۔ سائفر کوڈڈ زبان ہوتی ہے۔ اس کو لیک کرنے کا مطلب اپنی کوڈڈ لینگوئچ دنیا کو دینا چاہے۔ اس زبان کو صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو شعبے سے تعلق رکھتے ہین۔
سائفر کی تین کاپیز ہوتی ہیں جو تین لوگون کے پاس جاتی ہین۔ ان پیپرز کو جلا دیا جاتا ہے تاکہ لیک نہ ہوں۔
سائفر نکل جائے تو کیا نقصان ہوسکتا ہے؟
شدید نقصان ہوسکتا ہے۔ کوڈ وہ چوری کر لیتے ہیں لیکن ڈی سائفر کیا ہوا کچھ آجائے تو وہ ترجمہ کر کے آسانی سے اس کوڈڈ لینگوئج کو سمجھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کا سائفر گم یا چوری ہوا ہے۔ عمران خان تسلیم کرےت ہیں کہ میرے پاس تھا ور گم ہوگیا۔ پھر وہ چھپ بھی گیا ایک غیر ملکی اخبار میں۔
اس کے بعد پاسکتان کا کوئی خفیہ پیغام خفیہ نہین رہے گا۔
عمران خان کو اڈیالہ لانے کا نقصان یہ ہوگا کہ یہ کیس بہت تیز چلے گا اب۔ حامد خان یا کوئی بھی اس کیس کو سلو کرنا چاہتے ہیں کسی بھی طرح۔ اس دوران کوئی غیبی مدد مل جائے۔
عمران خان نے سائفر کیس بن جانے کے بعد موقف اختیار کیا کہ 27 تاریخ کو میں نے جلسے میں جو ایک کاپی لہرائی وہ سائفر نہیں تھا۔ [5] [6]
سائفر کیس میں عمران خان نے استشنیٰ مانگا ہے کہ آرٹیکل 248کے تحت استشنیٰ دیا جائے، وزیر اعظم کی حثیت سے جو کررہا تھا، اس پر جواب دہ نہیں۔
عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں سائفر بھیجنے والے اسد مجید اور عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی گواہ ہیں۔ ان کے علاؤہ سہیل محمود جس نے ریسیو کیا تھا اور ترمذی صاحب فارن آفس ڈائریکٹر جس سے سائفر کے حوالے سے امریکیوں کی بات چیت ہوئی تھی۔
اس کیس میں فریق ایف آئی اے ہے۔
سائبر کی 5 کاپیاں بنتی ہیں۔ ایک ڈی جی آئی ایس آئی ایک آرمی چیف اور ایک وزیراعظم کے پاس جاتی ہے۔ مطالعہ کے بعد یہ پانچوں کاپیاں واپس فارن آفس آتی ہیں جن کو ڈسپوز آف کردیا جاتا ہے۔ عمران خان نے کاپی واپس نہیں کی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن فائیو لگا ہے۔ گم کرنے پہ تو دو سال کی سزا ہے۔ لیکن اگر اس سائبر کو پبلک کرنے کا کسی دشمن نے فائیدہ اٹھایا ہو تو پھر چودہ سال قید یا سزائے موت ہے۔
عمران خان نے بارہا اعتراف کیا کہ اس سے سائفر گم ہوگیا تھا۔ [7]