عدلیہ میں عمران خان کی سہولت کاری

Shahidlogs سے

اسلام آباد ھائی کورٹ

11 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کر دیا جو 15 دن میں جمع کرانا ہوگا۔ [1]

31 اگست کو جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس زیبا دھمکی کیس میں عمران خان کے مضحکہ خیز تحریری جواب پر پی ٹی آئی کو ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ یہ جواب پھر اچھے سے لکھ کر لائیں۔ اس والے جواب سے دکھ ہوا۔ [2]

15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ جو اس وقت امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دن رات زہر اگل رہا ہے۔ [3]

2 اکتوبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ [4]

24 اکتوبر کو الیکشن کمیشن سے سزا پانے کے باؤجود اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا۔ [5]

28 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت ریمارکس دئیے۔ [6]

9 جنوری کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے معاملے میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔ [7]

2 فروری کو ٹیریان کیس میں عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ [8]

22 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے بینکنگ کورٹ سے عمران خان کی ضمانت منظور ہونے کے خلاف درخواست مسترد کردی۔ [9]

17 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔ [10]

27 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے بیک وقت 7 مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ عمران خان کو یہ ضمانتیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دے دیں گئیں۔ [11]

6 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان نے سیکیورٹی واپس لینے کو قابل تشویش قرار دیا۔ [12]

4 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل کو قتل کرنے کے الزام سمیت 7 مقدمات میں عمران خان کی 14 دن کی حفاظتی ضمانت کی منظور کر لی۔ [13]

12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی نئے مقدمے میں بھی 15 مئی تک گرفتار نہ کیا جائے۔ [14]

29 اگست کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ [15]

25 ستمبر کو عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو اے کلاس دلوانے کے لیے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کروانے کا حکم دے دیا۔ [16]



سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل میں پندرہ دن کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان کو پھر بھی ملاقاتیں کرائی جائیں۔ جب وہ نہیں کرائیں گئیں تو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ پر توہین عدالت لگا دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ [17]

دیگر

عدلیہ نے عمران خان کو جیل میں جتنی سہولیات دیں یہ پاکستان کے قید دیگر ہزاروں قیدیوں میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ [18]

حوالہ جات