صحت کارڈ
جنوری 2016 میں نواز شریف حکومت نے کم آمدنی والے یا معذور افراد کے لیے صحت کارڈ کے اجراء کا فیصلہ کیا۔ کارڈ میں فی کس پچاس ہزار روپے عام بیماریوں کے لیے جبکہ تین لاکھ روپے سنگین بیماریوں جیسے کہ بائی پاس، اینجیوپلاسٹی اور ڈائیلائسز کے لیے بھی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ [1]
معروف اینکر آفتاب اقبال نے نواز شریف دور میں صحت کارڈ کے اجراء پر زبردست تنقید کی تھی۔ لیکن عمران خان کے دور میں اسی کارڈ کے اجراء کو بہترین فیصلہ قرار دیا۔ [2]
صحت کارڈ پر اربوں روپے کرپشن کے انکشافات ہوئے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں اور ڈاکٹرز نے مریضوں کے ساتھ ملکر بڑے پیمانے پر جعلی بل بنائے۔ جن کا حجم بعض رپورٹس کے مطابق 100 ارب روپے سے زائد ہے۔ صوبہ پنجاب پر صرف صحت کارڈ کی مد میں 200 ارب روپے کا قرضہ پی ٹی آئی کے دور میں چڑھایا گیا۔ [3]
صحت کارڈ کا صرف پنجاب میں ایک دن کا 26 کروڑ روپے خرچہ تھا۔ صرف پنجاب کا صحت کارڈ کا بجٹ 400 ارب روپے تھا۔
نجی ہسپتالوں میں مریضوں کو ایک کی جگہ دو دو سٹنٹ ڈالے گئے۔
صرف اپر دیر کے ایک نجی اسپتال میں ایک سال میں 2602 آپریشن کیے گئے۔ روزانہ 8 سے 10 آپریشنز اپنڈکس کے کیے جا رہے تھے۔ ایک ہی خاندان کے دو دو تین تین افراد کا اپنڈکس آپریشن کیا گیا۔ [4]
صحت کارڈ کی مدد سے سیالکوٹ کے صرف ایک نجی ہسپتال نے 3 ارب روپے کمائے۔ [5]
صحت کارڈ کی سہولت والے اسپتالوں میں 80 فیصد خواتین کا سی سیکشن یا آپریشن کیا گیا بجائے نارمل ڈیلیوری کے۔ [6]
دیگر
عمران خان کے دور میں سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات اور ٹسٹ کی سہولت ختم یا بہت محدود کر دی تھی تاکہ وہ پیسے صحت کارڈ میں جھونکے جا سکیں۔ [7]
پی ٹی آئی پر یہ الزام بھی لگا کہ صحت کارڈ کے لیے حاصل کیا گیا ڈیٹا انہوں نے اپنی الیکشن مہم میں استعمال کیا۔ [8]