آصف زرداری
آصف زرداری کی کرپشن
آصف علی زرداری کے خلاف مختلف کرپشن کیسز میں کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کیسز کی تفصیل درج ذیل ہے۔
جعلی اکاؤنٹس کیس
نیب کے مطابق مشتاق احمد اور ملک کی ایک نامور نجی سوسائٹی کے درمیان 8 ارب روپے سے زائد کی غیر قانونی ٹرانزیکشن ہوئیں اور اس رقم سے کراچی کے پوش علاقے میں جائیدادیں خریدی گئیں۔ ریفرنس میں بتایا گیا کہ مذکورہ جائیدادیں آصف زرداری کی ملکیت ہیں جبکہ یہ رقم سمٹ بینک کے ذریعے منتقل کی گئی تھی۔ [1]
سوئس اکاؤنٹس کیس
تحقیقاتی اداروں نے سوئزرلینڈ میں 7 ایسے بینک اکاؤنٹس کا انکشاف کیا جن میں 13 ملین ڈالر کی رقم تھی اور یہ بینک اکاؤنٹس مبینہ طور پر بےنظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری کے تھے۔ ان الزام تھا کہ مذکورہ رقم کرپشن کی ہے اور اسی جی ایس نامی کمپنی کو کنٹریکٹ دینے کے بدلے کمیشن لیا گیا ہے۔ [2] اس کیس میں زرداری اور بے نظیر بھٹو کو پانچ سال قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
کوٹیکنا کیس
’ایس جی ایس‘ اور ’کوٹیکنا‘ نامی دونوں یورپی کمپنیاں درآمد کردہ سامان کی مالیت طے کرنے اور اس حساب سے ٹیکس وصول کرنے کی سفارشات کا کام کرتی ہیں۔ بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں دونوں کمپنیوں کو پری شپمینٹ انسپیکشن کے ٹھیکے اس بنیاد پر دیےگئے کہ بعض پاکستانی درآمد کنندہ درآمد کردہ اشیاء پر ٹیکس سے بچنے کے لیے ان کی قیمتیں کم ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب مسلم لیگ نواز کی حکومت قائم ہوئی تو بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے’ کمیشن‘ کی خاطر ایس جی ایس اور کوٹیکنا کمپنیوں کو ٹھیکے دیے اور بھاری رقم حاصل کی۔ [3]
پارک لین ریفرنس
آصف زرداری پر الزام ہے کہ اس نے جعلی فرنٹ کمپنی بنا کر نیشنل بنک کا قرض خردبرد کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بطور صدر پاکستان نیشنل بینک پر دباو ڈال کر قرض لیا اور اومنی گروپ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی۔ اس کیس میں آصف زرداری پر 4 ارب روپے کی خرد برد کا الزام ہے۔ [4]
دیگر
عمران خان کو تحریک عدم اعتماد میں شکست دینے کا روح رواں آصف زرداری تھا۔
آصف زرداری نے اٹھاوریں ترمیم کی تھی۔
آصف زرداری کے دور میں ہی کے پی کے کو نام دیا گیا تھا۔
آصف زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ میں انکا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
آصف زرداری کو کرپشن کی وجہ سے مسٹر 10 پرسنٹ بھی کہا جاتا تھا۔
آصف زرداری کو کچھ لوگوں نے جنرل ضیاء الحق کی قبر کی بےحرمتی کا مشورہ دیا جس کو اس نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ [5]