ارشد شریف کا قتل

Shahidlogs سے

23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع علی الصبح جویریا صدیقی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی۔ کینین پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا اور غلط فہمی میں مارا گیا ہے۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا کی پولیس غلط بیانی کر رہی ہے اور ارشد شریف کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگایا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔

کینیا پولیس کا موقف

ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور ''غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔

تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔

کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف نے وقوعہ کا دن کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقعے ایک دور دراز علاقے مگادی میں ایمو ڈمپ (ایمیونیشن ڈمپ) نامی کیمپ میں دن گزارا تھا۔

ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ

اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم احمد اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے 592 صفحات کی رپورٹ مرتب کی۔

اس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

پولیس کے بیانات میں تضاد تھا۔ رپورٹ کے مطابق کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔

خرم احمد اور وقار احمد کے بیانات میں بہت تضاد تھا اور وہ پوری معلومات فراہم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔

خرم احمد نے بیان دیا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔ خرم نے رکے بغیر گاڑی چلائی اور فائرنگ کی آواز سنی۔ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔

رپورٹ کے مطابق گاڑی پر دو ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن تھی اور مجموعی طور پر 9 گولیاں چلائی گئیں۔

ارشد شریف کے فون کو پاسورڈ لگا تھا اور پاسورڈ کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین نے کہا کہ ایسا کرنے سے فون میں موجود ڈیٹا ختم ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔

وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔

خرم احمد اور وقار احمد

ارشد شریف کے قتل میں سب سے مشکوک کردار اس کے میزبان خرم احمد اور وقار احمد کا ہے۔ خرم احمد قتل کے وقت ارشد شریف کے ساتھ تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں کے بیانات میں بہت زیادہ تضاد تھا اور وہ پوری معلومات دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ کینیا کی میڈیا نے انکو بھائی قرار دیا لیکن ان کے رشتے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جس فارم ھاؤس میں ارشد شریف کا قیام تھا وہ وقار احمد کا تھا۔

ارشد شریف نے ایمو ڈمپ نامی کمپنی کے کیمپ میں وقت تو گزارا تھ اور اس کمپنی کا مبینہ مالک وقار احمد ہیں۔ کمنپیوں کی رجسٹریشن جمع کرنے والی ٹریڈ فورڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کمپنی کی تعریف میں ویب سائٹ نے صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ ’گورنمنٹ کنٹریکٹ‘ ہے اور رابطے کے کالم میں وقار احمد کا نام لکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔

تسنیم حیدر کے انکشافات

برطانیہ میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے رہنما تسنیم حیدر نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات کیے۔ اس نے دعوی کیا کہ ارشد شریف کو نواز شریف اور مریم نواز نے مروایا ہے۔ مریم نواز ان سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ ن لیگی راہنما نے بتایا کہ ناصر بٹ نامی شخص نواز شریف اور مریم نواز کے لیے غیر قانونی کام کرتا ہے۔ صحافی کے قتل کے لیے پہلے مجھے بولا گیا تھا لیکن میں نے جواب دیا کہ میرے کینیا میں تعلقات نہیں جس کے بعد یہ کام کسی اور کو سونپا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے سے قبل ان کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی۔ تین لوگوں نے صحافی پر تشدد کیا اور پھر قتل کر دیا۔ ارشد شریف پر تشدد اور قتل کی ویڈیو مریم نواز کو بھیجی گئی اور وہ ویڈیو میں نے خود ناصر بٹ کے فون پر دیکھی ہے۔

پاک فوج کا موقف

جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاک فوج نے کینیا پولیس کا موقف رد کیا گیا اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ فوج کے پاس ارشد شریف کی نقل و حرکت کی جو معلومات تھیں وہ تفصیلات جاری کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔

اس کے بعد دونوں ڈی جیز نے درج ذیل سوالات اٹھائے۔

1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟

2۔ کس نے ان کو یقین دلایا کہ کینیا جیسا ملک اس کے لیے محفوظ ہے؟ جب کہ دنیا میں 34 ممالک ایسے ہیں جہاں وہ بغیر ویزے کے جاسکتے تھے۔

3۔ کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کون کر رہا تھا؟

4۔ پاکستان میں اس کے رابطے کس کس سے تھے؟

5۔ وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں اور ان سے ارشد شریف کے رابطے کس نے استوار کرائے؟

6۔ کچھ لوگوں نے لندن میں ارشد شریف سے ملاقاتے کے دعوے کیے تھے۔ وہ لوگ کون ہیں اور انہوں نے یہ دعوے کیوں کیے؟

7۔ ارشد شریف کی موت کینیا کے دور افتادہ علاقے میں ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے بھی ان کو نہیں پہچانا۔  پھر اس کی وفات کی سب سے پہلی اطلاع وہاں سے یہاں کس نے دی اور کس کو دی؟

8۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ ارشد شریف کا قتل 'غلط شناخت' کا ہی واقعہ ہے یا یہ ٹارگٹ کلنگ تھی؟

9. کچھ لوگوں نے اس سفاکانہ قتل کو فورا فوج کی جانب موڑ دیا۔ دیکھنا چاہئے کہ اس قتل سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان؟

ارشد شریف کے خاندان کا موقف

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو ا17 نومبر کو ایک خط لکھا۔ جویریہ صدیقی نے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطر عدالتی کمیشن بنانے کے لیے مدد طلب کی۔ جویریہ صدیقی نے لکھا کہ حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کئی تضادات ہیں جس کے باعث ان کے خاندان نے وہ رپورٹ مسترد کر دی ہے۔

‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔ جہاں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘

ارشد شریف کی والدہ نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھا اور اعلٰی سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے۔ اگر میری استدعا قبول نہ کی گئی تو میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دوں گی۔‘

والدہ ارشد شریف نے لکھا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے جن میں غداری کے مقدمات بھی شامل تھے۔ ’اس وجہ سے ان کی زندگی کو خطرات تھے۔ ان خطرات کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑی، ارشد شریف کی بیوہ اور یتیم بچوں کو انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔‘

والدہ کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس نے تین سے چار مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی روانگی سے قبل وفاقی وزرا نے من گھڑت کہانیاں بنائیں جن کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ یہ بیانات میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ مجھے انصاف کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔

صحافی ارشد شریف کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔

6 جون کو ارشد شریف مرحوم کی والدہ نے عمران خان ، فیصل واوڈا ، مراد سعید ، سلمان اقبال ، اور عمران ریاض کو شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائر کر دی۔ اس حوالے سے خاندان کا موقف ہے کہ ہمیں انہوں گھیرا ہوا تھا اور ہمارے بیٹے کی لاش پر سیاست کر رہے تھے۔

ارشد شریف کا قاتل کون؟

ارشد شریف کے قتل کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا اور فائدہ بھی۔ نقصان یہ ہوا کہ ایک بڑے حامی اینکر سے محروم ہوگئی۔ جب کہ فائدہ یہ ہوا کہ کارکنوں میں مزید غم و غصہ بھر گیا جو شائد لانگ مارچ کے لیے ایندھن کا کام کرے۔

پاک فوج کو سراسر نقصان ہوا ہے جو پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی ان کے خلاف ایک اور طوفان اٹھا لیا گیا۔ نہ کسی تحقیقات کی ضرورت اور نہ کسی ثبوت کی۔

البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔ اس کےعلاوہ انڈین ایجنسی را بھی پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی اس قسم کی شرارتیں کرتی رہتی ہے جس سے پاکستانی ریاست کے اندر خانہ جنگی کی فضا بن سکے یا قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلے۔

دیگر

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ارشد شریف کو عمران خان نے بھی آگاہ کیا تھا کہ اسکی جان کو خطرہ ہے۔ عماد یوسف اور مراد سعید نے بار بار اسکو آگاہ کیا کہ اسے قتل کیا جاسکتا ہے۔

5 اگست 2022ء کو سی آئی ڈی کی جانب سے ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ موصول ہوا۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے گارنٹی دی تھی حفاظتی ضمانت کے ساتھ کہ ارشد شریف کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس لیے اسلام آباد زیادہ محفوظ تھا۔

8 اگست 2022ء کو شہباز گل ایک سکرپٹ اے آر وائی پر پڑھتا ہے۔ جب اچانک شہباز گل بغاؤت کا بیانیہ نکال دیتا ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ تھریٹ الرٹ جعلی تھا۔ اس کو وزیراعلی محمود خان نے انسپکٹر جنرل کاؤنٹر ٹررزم جاوید خان کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

وزیراعلی کا پروٹوکول افسر عمر گل آفریدی اگلے ہی روز ارشد شریف کو پشاور ائرپورٹ لے گیا۔ راستے میں مراد سعید نے لیپ ٹاپ بھی لے لیا حفاظت کے بہانے۔

اے آر وائی نے ٹکٹ کرایا اور دبئی میں رہائش اور قیام و طعام کو بندوبست بھی کیا۔ 20 دن کا ویزہ تھا۔ وہاں سلمان اقبال کے کزنز نے ارشد شریف کے کینیا ویزے کا بندوبست کیا۔ اس ویزے کو وقار نے سپانسر کیا تھا۔ اے آر وائی کے خرم غنی نے ائر پورٹ چھوڑا۔

20 اگست کو آزر بائی جان کے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا۔ کیونکہ مجھے کینیا جانے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔

وقار عجیب کردار تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ 21 اگست کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ آزر بائی جان کا ویزہ لگنے کے باؤجود خرم اور وقار نے مجھے روکے رکھا۔ [1]

ہارون رشید نے دعوی کیا کہ ارشد شریف کے قتل کا شریف خاندان کو علم تھا اور یہ ایم آئی فائیو نے اپنی تحقیقات سے معلوم کیا۔ [2]