"بلوچستان کا مسئلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م بلوچستان کا مسئلہ» کو محفوظ کیا ([ترمیم=محض خود توثیق شدہ صارفین کو اجازت ہے] (لا محدود) [منتقل=محض خود توثیق شدہ صارفین کو اجازت ہے] (لا محدود)))
(کوئی فرق نہیں)

نسخہ بمطابق 08:32، 30 اگست 2024ء

بلوچستان کئی عشروں سے شورش کی زد میں ہے۔ ریاست پاکستان اس شورش سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے لیے شرپسند عناصر کے خلاف کاروائیوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی تعمیر و ترقی پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں برپا شورش اب تک ہزاروں جانیں لے چکی ہے۔ اس شورش کی وجہ چند ایسے دعوے ہیں جن کی مدد سے بلوچ جوانوں کو ریاست پاکستان کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔ لہذا اس مضمون میں درج ذیل چیزوں کے حوالے سے حقائق جمع کیے جائینگے۔

کیا قیام پاکستان سے پہلے بلوچستان ایک آزاد ریاست کا نام تھا؟

کیا بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ زبردستی الحاق ہوا تھا؟

کیا واقعی پاکستان بلوچستان کے وسائل کھا رہا ہے؟

کیا واقعی بلوچستان کو محروم رکھا گیا ہے؟

بلوچ مسنگ پرسنز کا کیا معاملہ ہے؟

اور بلوچستان میں جاری ریاست کے خلاف اس جنگ کا کیا کبھی بھی بلوچوں کو کوئی فائدہ ہوگا؟

بلوچستان اور قلات کی قیام پاکستان سے پہلے حیثیت

بلوچ جوانوں کو اپنی ریاست سے لڑوانے کے لیے جو جھوٹ بولے جاتے ہیں ان میں سب سے پہلا یہ ہوتا ہے کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی جس کو زبردستی پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ تم ایک غاصب اور قابض کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہو۔ اس حوالے سے ان کو کئی جھوٹی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق بلوچستان کے تمام نمائندوں نے اپنی مرضی اور خوشی سے کیا تھا۔ آئیں ذرا تاریخ سے گرد جھاڑتے ہیں اور تمام واقعات اور حقائق آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ 1947 سے پہلے بلوچستان نامی ریاست کا کہیں کوئی وجود نہیں تھا۔ موجودہ بلوچستان کو پاکستان نے بنایا ہے۔ 1933ء تک بلوچستان کا یہ علاقہ 6 حصوں پر مشتمل تھا۔ قلات، خاران اور لسبیلہ شاہی ریاستیں تھیں، مکران ضلع تھا اور باقی علاقہ تاج برطانیہ کا چیف کمشنر صوبہ تھا۔ گوادر سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ ان سب کے معاملات بلوچ و پشتون شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی کے تحت چلائے جاتے تھے۔

قیام پاکستان سے قبل موجودہ بلوچستان کا تقشہ

1933ء میں انگریز نے خان آف قلات کو لسبیلہ اور خاران کا انتظامی کنٹرول دیا لیکن ان کو ریاست قلات میں شامل نہیں کیا۔ اس وقت بھی خان آف قلات کی "نان انڈین سٹیٹ" بنائے جانے کی درخواست تاج برطانیہ نے مسترد کر دی تھی۔

پاکستان کے خلاف شورش ریاست قلات سے شروع ہوئی جس کے 'خان' کے ایک کانگریسی بھائی نے بغاؤت کر دی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس باغی کی بیوی افغان شاہی خاندان سے تھی اور قلات کے حکمران کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی وہ اپنی بیوی کے ساتھ افغانستان بھاگ گیا تھا اور وہاں پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا پہلا کیمپ بنایا۔ یہ بلوچستان میں افغانستان کی پاکستان کے خلاف پہلی پراکسی تھی۔

ایک اور اہم بات نوٹ کیجیے کہ قلات کا حکمران جو 'خان آف قلات' کہلاتا تھا براہوی نسل تھا نہ کہ بلوچ۔ بلوچ نسل موجودہ بلوچستان کی کل آبادی کا 35٪  ہیں۔ براہوی 17٪ اور پشتون بھی 35٪ ہیں۔ باقی دیگر قومتوں کے لوگ ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی تقریباً یہی تناسب تھا۔

برطانوی دور کی 'بلوچستان ایجنسی' کے تمام علاقوں کو 1877ء تک تاج برطانیہ کا باقاعدہ حصہ بنایا جا چکا تھا۔ معاہدہ مستونگ 1854ء میں ہوا، معاہدہ قلات 1875ء میں ہوا اور معاہدہ جیکب آباد 1876ء میں ہوا۔ یہ معاہدے سر رابرٹ سنڈیمن نے اتنی مہارت سے کیے کہ یہ سارے علاقے بغیر جنگ کے تاج برطانیہ کے تسلط میں چلے گئے۔ جس کے بعد سر رابرٹ سنٹیمن کو 'بلوچ کا پرامن فاتح' کا خطاب دیا گیا۔

معاہدہ قلات پر دستخط کرنے کے بعد خان آف قلات نے قلات کو تاج برطانیہ کے زیر کنٹرول شاہی ریاست (Princely State) تسلیم کر لیا تھا۔ جس کے بعد نہ قلات کو فوج رکھنے کی اجازت تھی، نہ وہ بیرونی تعلقات یا الگ خارجہ پالیسی رکھ سکتا تھا، نہ ریلوے اور نہ وہ بیرونی تجارت کر سکتا تھا۔ نیز خان آف قلات نے برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کو بلوچ سرداروں کے درمیان تنازعات میں بطور ثالث تسلیم کر لیا تھا۔

خان آف قلات اس معاہدے کے تحت نہ صرف تاج برطانیہ کو ٹیکس دینے کا پابند ہوا بلکہ وہ بوقت ضرورت جنگ کے لیے تاج برطانیہ کو افرادی قوت بھی فراہم کرنے کا پابند تھا۔ بدلے میں تاج برطانیہ نہ صرف قلات کی افغانستان سے ہونے والی دراندازیوں سے حفاظت کرے گی بلکہ 'خان' کو پیسے یا وظیفہ بھی دے گی۔

قلات کی طرح پورے ہندوستان میں کل 565 شاہی ریاستیں تھیں جن پر نواب، خان یا راجے مہاراجے حکمران تھے۔ یہ شاہی ریاستیں کشمیر کی طرح خود مختار نہ تھیں۔ نہ ہی یہ کوئی آزاد ریاستیں تھیں۔

ریاست قلات موجودہ بلوچستان کے کل رقبے کا پانچواں حصہ تھی۔ تاج برطانیہ نے خان آف قلات، مکران اور خاران کے نوابوں اور لسبیلہ کے جام کو 1903ء میں شاہی دربار دہلی میں بلایا تھا۔ اس دعوت میں ساروان اور جھالوان کے نوابوں کو دعوت نہیں دی گئی تھی کیونکہ یہ علاقے قلات کے ہی زیر اتنظام سمجھے جاتے تھے۔ یہ تقریب تاج برطانیہ کے زیر انتظام شاہی ریاستوں کے لیے منعقد کی گئی تھی۔

لہذا یہ بات بلکل جھوٹ ہے کہ قلات یا بلوچستان کا کوئی بھی حصہ قیام پاکستان سے پہلے آزاد یا خود مختار تھا۔ قلات تاج برطانیہ کے زیر نگیں دیگر 565 شاہی ریاستوں کی طرح کی برطانیہ کی باجگزار ایک ریاست تھی جس کو نہ فوج رکھنے کی اجازت تھی، نہ بیرونی تجارت، نہ خارجہ پالیسی حتی کہ ریلوے بنانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قلات اور ان دیگر ریاستوں میں کوئی فرق نہ تھا اور اس کے تمام دستاویزی ثبوت آج بھی موجود ہیں۔

بلوچستان ایجنسی کا پاکستان کے ساتھ الحاق

بلوچستان کے حوالے سے دوسرا سب سے بڑا اور تاریخی جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ قلات یا بلوچستان کے علاقوں کو پاکستان نے جبراً ضم کیا۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے کچھ نواب تو الحاق میں تاخیر پر قائداعظم سے ناراض ہوگئے تھے۔ صرف 'خان آف قلات' میر احمد یار خان نے زیادہ اثرونفوذ یا فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے الحاق میں تاخیر کی لیکن آخر کر لیا تھا۔

قانون ازادی ہند کے تحت ہندوستان میں تمام شاہی ریاستوں (princely states) کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق الحاق کریں۔ ہندوستان میں 1947ء میں 565 (princely states) تھیں، جو انگریز کی باجگزار تھیں۔

قانون آزدی ہند کے تحت تمام شاہی ریاستوں نے پاکستان یا انڈیا میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا تھا۔ آزادی کا آپشن کسی ریاست کو نہیں دیا گیا۔ آزاد صرف دو ریاستیں ہورہی تھیں پاکستان اور انڈیا۔ یہ دو ریاستیں ہی تاج برطانیہ کی successor stateؔ تھیں۔ ایسی کوئی تیسری آزاد ریاست نہ تھی۔ انہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس انتخاب میں جغرافیے، آبادی اور مذہبی معاملات کو ملحوظ رکھنا تھا کیونکہ انڈیا کی تقسیم  مذہب کی بنیاد پر ہورہی تھی۔

قلات کی 98 فیصد آبادی مسلمان تھی اور جغرافیہ پاکستان کے اندر ہی تھا۔ لہذا اسکا پاکستان کے ساتھ الحاق طے تھا۔ جوناگڑھ ہندو اکثریتی ریاست نے پاکستان سے الحاق کیا لیکن بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا اور قبضہ کر لیا۔ ہندو اکثریتی حیدرآباد دکن نے ازاد رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے اسے بھی تسلیم نہیں کیا اور قبضہ کر لیا۔

بلکل اسی طرح قلات کے پاس آزاد رہنے کا کوئی آپشن نہ تھا نہ ہی وہ انڈیا کے پاس جاسکتی تھی۔ ریاست قلات برٹش انڈیا کا حصہ تھی اور پاکستان برٹش انڈیا کی"successor state" تھی۔ قلات پاکستان میں شامل نہ ہوتا تو ریاست قلات کے پاس واحد آپشن انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا تھا جو جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے ممکن نہ تھا۔  

لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے 3 جون 1947 کے تقسیم ہند کے پلان کےمطابق 18 جولائی 1947 کو برطانوی سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا نے ہندوستان میں برطانوی زیر حفاظت تقریباً 565 راجوں مہاراجوں اور نوابوں کی ریاستوں کے بارے میں کہا کہ اِن ریاستوں کو آزادممالک تسلیم نہیں کیا جائےگا بلکہ یہ ریاستیں اپنی جغرافیائی اور مذہبی  وابستگی کے حوالے سے پاکستان یا ہندوستان کےساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔

برٹش بلوچستان میں اکثریتی پشتون کاکڑ قبائل کے علاوہ مری بگٹی اور مینگل قبائل کے علاقے شامل تھے۔ یہ سارے براہ راست برطانوی حکومت ہند کے ماتحت تھے۔ جس کے سیاسی امور کوئٹہ میونسپلٹی اور پشتون و بلوچ سرداروں کی نمائندہ تنظیم شاہی جرگہ کی مشاورت سے چلائے جاتے تھے۔

ان سب علاقوں کو پاکستان میں ضم کرنے کے لیے مسلم لیگ بلوچستان کے نمائندوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں پورے بلوچستان میں پرجوش مہم چلائی۔ موجودہ بلوچستان کے ہزاروں لوگ اس وقت ان ریلیوں میں شرکت کرتے تھے۔

29 جون 1947 کو برٹش بلوچستان کے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کے لیے کوئٹہ کے ٹاؤن ہال میں صبح دس بجے بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے منتخب ارکان کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس مشترکہ اجلاس میں کل 54 ارکان شامل ہوئے۔ سب نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ آٹھ غیر مسلم اراکان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

سوائے ریاست قلات کے بلوچستان کے تمام عمائدین نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا۔ صرف ایک سردار دوست محمد مینگل نے اِس موقع پر کہا کہ وہ ریاست قلات کےساتھ جانا چاہتے ہیں لیکن جب اُنہیں گورنر جنرل نے بتایا کہ رائے شماری صرف پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کےلئے ہے تو سردار دوست محمد مینگل نے کہا کہ پھر ہم پاکستان کےساتھ جائنگے۔

خان آف قلات تاخیر کرتا رہا اور 11 اگست 1947ء کو الحاق کی شرائط پر بات کرنے کے لیے قائداعظم کے ساتھ ایک 'سٹینڈ سٹل' ایگریمنٹ کیا۔ جسے ماؤنٹ بیٹن نے فوری طور پر مسترد کر دیا۔ کیونکہ اس وقت قائداعظم کسی 'شاہی ریاست' کی حیثیت کا تعئن  نہیں کر سکتے تھے۔ ریاستوں کی حثییت کا تعاؤن تاج برطانیہ نے ہی کرنا تھا۔

خاران مکران اور لسبیلہ نے بھی اس 'سٹینڈ سٹل' ایگریمنٹ کو مسترد کردیا اور واضح کیا کہ وہ قلات کا حصہ یا زیر نگیں ریاستیں نہیں ہیں اور خان آف قلات ان کا نمائندہ نہیں ہے۔

خاران، لسبیلہ اور مکران کے حکمرانوں نے فوری طور پر قائداعظم کو الحاق کے لیے درخواستیں بھیج دی تھیں۔ لیکن قائداعظم نے جب ان درخواستوں پر قلات کی وجہ سے دستخط کرنے میں تاخیر کی تو خاران کے میر حبیب اللہ خان نوشیراونی باقاعدہ غصے اور افسوس کا اظہار کیا اور قائداعظم کو ایک اور خط لکھا کہ "خاران کے لوگ قلات سے آزاد ہیں اور پاکستان کے لیے مریں گے۔"

ریاست لسبیلہ پر موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے دادا جام غلام قادر خان کی حکومت تھی۔ اس نے برطانوی راج کے خاتمے کے بعد قائداعظم کو خان آف قلات کے لسبیلہ پر دباؤ ڈالنے والی سیاست سے آگاہ کیا اور کئی خط لکھے جن میں پاکستان سے فوری الحاق کا مطالبہ کیا۔

مکران پر نواب بائی خان گچکی کی حکومت تھی۔ اس نے قائداعظم سے الحاق کی درخواست پر فوری دستخط کرنے پر بار بار اصرار کیا اور جب بےصبری بڑھی تو قائداعظم کو دھمکی دی کہ "اگر پاکستان جلد ہی مکران کا الحاق قبول نہیں کرتا تو ہم دوسروں سے رجوع کر سکتے ہیں۔" خاران، مکران اور لسبیلہ کے حکمرانوں نے مارچ 1948ء میں اسی سلسلے میں قائداعظم سے ملاقاتیں بھی کیں۔

خان آف قلات پر قلات میں موجود انڈین نیشنل کانگریس کے نمائندوں کا دباؤ تھا۔ جیسے باچا خان نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں آزاد رہنے کا آپشن رکھنے کا مطالبہ کیا تھا یہاں بھی کانگریسی خان آف قلات سے تاج برطانیہ سے آزادی کا آپشن دینے کا مطالبہ کر رہے تھے جسے مسترد کیا جا چکا تھا۔ 'خان آف قلات' جانتے تھے کہ یہ ممکن نہیں لیکن وہ تاخیری حربوں کے ذریعے نئی بننے والی ریاست پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ اور فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ قلات سے ملک سعید خان دہوار، گل خان نصیر، عالیجاہ غوث بخش مینگل، غوث بخش بزنجو کانگریسی تھے اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے خلاف تھے۔

اس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ قلات کا الحاق فروری 1948ء تک موخر ہوگیا۔ جس کے بعد قائداعظم نے بلاآخر خاران، لسبیلہ اور مکران کی زیر التواء الحاق کی درخواستیں قبول کر لیں اور قلات پاکستان کے وسط میں ایک چھوٹی سی الگ تھلگ شاہی ریاست رہ گئی۔

آل انڈیا ریڈیو نے 27 مارچ 1948ء کو خبر نشر کی کہ خان آف قلات احمد یار خان نےدو ماہ قبل ہندوستان سے الحاق کرنے کی درخواست کی تھی لیکن ہندوستان نے جغرافیائی وجوہات کی بناء پر اسے قبول نہیں کیا۔ یہ خان آف قلات ی بہت بڑی سبکی تھی لہذا اس نے بھارت سے رابطوں کی تردید کرتے ہوئے فوری طور پر پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ 31 مارچ 1948 کو قلات کا انسٹرومنٹ آف ایکسیشن قائد کو پیش کیا گیا جسے انھوں نےتسلیم کر لیا۔

قلات کی پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط

خان اف قلات کا دعوی تھا کہ اس نے قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق خواب میں حضورﷺ کی ہدایت پر خود کیا تھا۔ خان آف قلات کے پوتے پرنس عمر  نے متعدد ٹی وی پروگرامز میں اس کا اظہار کیا کہ میرے دادا نے خواب میں حضور پاک کی ہدایت پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

خان آف قلات احمد یار خان کا بھائی پرنس کریم بھی کانگریسی سرخا تھا۔ پاکستان سے الحاق کے خلاف تھا۔ الحاق پر اپنی افغانی بیوی کے ساتھ افغانستان فرار ہوا اور وہاں افغان حکومت کی مدد سے پاکستان کے خلاف پہلا دہشتگردی کا کیمپ بنایا۔ تین ماہ بعد پاکستان پر پہلا حملہ کیا اور مار کھا کر بھاگا۔ اس کے ٹریننگ کیمپ کا حصہ بننے والے لوگ بلوچستان کے اولین 'مسنگ پرسنز' تھے۔

قوم پرست سرخوں کی طرف سے ایک سنگین غلط بیانی یہ بھی کی جاتی ہے کہ احمد یار خان  کو پاک فوج نے گرفتار کر کے اس سے بندوق کی نوک پر الحاق پر دستخط کروائے تھے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ  انہیں 1948 میں نہیں بلکہ 6 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کی حکومت کی طرف سے ون یونٹ کی عوامی مخالفت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ 1948ء میں تو خان آف قلات کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد شاہی لقب دیا گیا اور انہیں بلوچستان کی نو تشکیل شدہ قبائیلی کونسل کا رسمی "خان اعظم" مقرر کیا گیا۔ یوں سمجھیں بلوچستان کے بہت بڑے حصے کا حاکم بنایا گیا۔

یہ سب کچھ اسی دور کے پاکستان مخالف قوم پرست راہنماؤوں میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر حتی کہ خود میر احمد یار خان کی اپنی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ وہاں کہیں بھی آپ کو کسی زور زبردستی کا کوئی ایک حوالہ نہیں ملے گا۔

سچ یہی ہے کہ بلوچستان کے تمام شاہی ریاستوں اور تمام نمائندوں نے ہنسی خوشی اور اپنی رضامندی بلکہ ضد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اور اس کے لیے کسی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔

گوادر کو حکومت پاکستان نے 1958ء میں سلطنت عمان سے خریدا اور 20 سال بعد میں اس کو صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا۔ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یعنی یہ بلوچستان کو موجودہ شکل پاکستان نے دی۔

بلوچستان کی محرومی اور وسائل کی حقیقت

کوئی شک نہیں کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں ضروریات زندگی کے کئی بنیادی مسائل ہیں پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح۔

لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان کے وسائل پاکستان کھا گیا یا پاکستان نے دیگر صوبوں کی بہ نسبت بلوچستان کو محروم رکھا یا بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ پاکستان ہے بہت بڑا جھوٹ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

جن علاقوں میں پانی نایاب ہو وہاں انسانی آبادیاں کم ہوتی ہیں اور وہ ہمیشہ نسبتاً پسماندہ رہتے ہیں۔ بلوچستان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ بلوچستان کی تمام معلوم تاریخ میں یہ سندھ، پنجاب اور کے پی کے کے مقابلے میں ہمیشہ پسماندہ ہی رہا۔ حتی کہ چودہ سو سال پہلے حضورﷺ کے ایک صحابی یہاں سے ہوکر گئے تو حضورﷺ کو اپنی جو کارگزاری سنائی اس میں اس علاقے کی ویرانی کا خصوصاً ذکر کیا تھا۔

قیام پاکستان کے وقت بھی یہی حال تھا البتہ قیام پاکستان کے بعد ہزاروں سال کے ویران اس بلوچستان کو پاکستان نے وہ سب کچھ دیا جو ممکن تھا، سڑکیں، ڈیمز، کالجز، یونیورسٹیاں اور ان شاءاللہ عنقریب یہاں سے ساری دنیا کی تجارت بھی ہوگی۔

بلوچستان میں پانی نہیں ہے نہ زرخیز زمینیں ہیں۔ آبادی بھی بہت تھوڑی ہے تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ کے قریب۔ اسی لیے یہ علاقے اپنی خوارک کے لیے ہمیشہ سے سندھ اور پنجاب پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ البتہ بلوچستان معدنیات سے مالامال ہے۔ بلوچستان میں گیس اور تیل کے ذخائر بھی ہیں۔

سب سے پہلے گیس کی بات کرتے ہیں کیونکہ اسی پر زیادہ پراپگینڈہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں پہلی بار گیس بلوچستان میں ہی دریافت ہوئی تھی۔ 1995ء میں جب بلوچستان میں گیس کی پیدوار اپنے عروج پر تھی اس وقت بلوچستان پاکستان کی کل ضرورت کی 56٪ گیس پیدا کر رہا تھا۔

آج پاکستان کی روزانہ گیس کی ضرورت 4000 ملین کیوبک فٹ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں گیس کی کل پیدوار 3597 ملین کیوبک فیٹ روزانہ ہے۔ جس میں بلوچستان 359 ملین کیوبک فیٹ گیس پیدا کررہا ہے۔

یعنی بلوچستان اس وقت پاکستان کی کل ضرورت کا 9٪ گیس پیدا کررہا ہے۔ جس میں 6٪ خود بلوچستان میں استعمال ہوتی ہے اور 3٪ باقی پاکستان کو سپلائی کی جاتی ہے۔ 91٪ گیس باقی صوبے پیدا کررہے ہیں یا باہر سے منگوائی جاتی ہے۔

پاکستان میں تیل کی روزانہ ضرورت ساڑھے 5 لاکھ بیرل ہے۔ لیکن پاکستان میں تیل کی پیدوار 80 تا 90 ہزار بیرل روزانہ ہے۔ یہ 80 یا 90 ہزار بیرل تیل باقی تینوں صوبےپیدا کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تیل کی پیدوار فلحال 0 ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کا باقی ساڑھے 4 لاکھ بیرل تیل باہر سے خریدتا ہے۔ اسی تیل سے بلوچستان کی ضرورت بھی پوری کی جاتی ہے جو اس گیس سے کہیں زیادہ ہے جو بلوچستان سے پاکستان کے باقی علاقوں کو دی جاتی ہے۔ یا پھر افغانی ایران سے تیل سمگل کر کے بلوچستان لاتے ہیں جس کا نقصان پاکستانی معیشت کو ہوتا ہے۔

پاکستان باہر سے جو تیل خریدتا ہے وہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے لیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کا بوجھ بلوچستان پر کتنا ہے اس پر آگے بات کرتے ہیں۔

تیل اور گیس کے بعد بلوچستان کی تیسری اہم ترین چیز کاپر (تانبے) اور سونے کے ذخائر ہیں۔ اس کے لیے سینڈک میں کام ہورہا ہے اور ریکوڈک میں جلد شروع ہوجائیگا ان شاءاللہ۔ ان ذخائر کے حوالے سے آپ نے شائد یہ سنا ہوگا کہ 500 ارب ڈالر یا 1000 ارب ڈالر کے ہیں، پاکستان کا قرضہ اتار سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ شائد آپ کو کسی نے نہیں بتایا ہوگا کہ ان کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی لاگت اتنی زیادہ ہےکہ یہاں سے نکالنے کی نسبت باہر سے امپورٹ کرنا سستا پڑتا ہے۔ یا پرانا استعمال شدہ کاپر دوبارہ پگھلا کر استعمال کرنا اس سے بھی سستا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1995ء میں بے نظیر نے سینڈک پراجیکٹ پر کام رکوا دیا تھا کہ مارکیٹ سے زیادہ مہنگا پڑ رہا تھا۔ البتہ آج دنیا میں کاپر کی طلب بڑھی ہے اور قیمتیں بڑھی ہیں تو امید ہے کہ اب وہاں سے کاپر مائننگ کا فائدہ ہوگا۔

سینڈک میں سونا نکالنے کا ضرور کچھ فائدہ ہورہا ہے۔ لیکن اس پر بھی بہت سی وجوہات کی بنا پر کام رکا رہا۔ لیکن اگر بھرپور کام کیا جائے تو سینڈک سے سالانہ 72000 اونس سونا نکالا جا سکتا ہے جس پر اخراجات نکال کر 8 سے 10 ارب روپے بچتے ہیں۔ جن میں سے آدھا نکالنے والی چینی کمپنی کا ہے یعنی 4 تا 5 ارب روپے۔ باقی جو 4 یا 5 ارب روپے بچیں گے وہ حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت آپس میں تقسیم کرینگے۔

سب سے زیادہ ریکوڈک سے امیدیں ہیں کہ وہاں سے بلوچستان اور پاکستان دونوں کا کچھ بھلا ہوسکتا ہے۔ ریکوڈک سے سالانہ ڈھائی لاکھ اونس سونا پیدا ہو سکتا ہے جس سے اخراجات نکال کر 30 تا 40 ارب روپے سالانہ بچ سکتے ہیں۔ اس میں کمپنی کا آدھا حصہ نکالیں تو سالانہ 15 تا 20 ارب روپے بلوچستان اور وفاقی حکومت کو بچیں گے جو طے کیے گئے فارمولے کے حساب سے آپس تقسیم کرینگے۔ ریکوڈک میں بڑی مقدار میں تانبا بھی نکالا جاسکتا ہے اور اس کا ابھی دیکھنا ہوگا کہ منافع بخش ثابت ہوگا یا نہیں۔

یعنی ریکوڈکٹ اور سینڈک وغیرہ کا کل ملا بھی سالانہ 40 ارب روپے سے اوپر نہیں جاسکتا۔ جس میں کچھ بلوچستان کو ملے اور کچھ مرکزی حکومت کو۔ دوسری جانب پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر سیالکوٹ کی ہاتھوں سے بنائی جانی والی اشیاء کی سالانہ برآمدات 3 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ یعنی کم از کم بھی 400 ارب روپے سالانہ پاکستان کو دے رہا ہے۔ یعنی ریکوڈک اور سینڈک جیسے 10 پراجیکٹس کے برابر۔

ان کے علاوہ بلوچستان میں کوئلہ، بیرائٹ، کرومائٹ، جپسم اور ماربل بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک چیز وفاقی حکومت نکال رہی ہے نہ ہی باہر کی کوئی کمپنی۔ سارا کچھ مقامی لوگ خود کر رہے ہیں۔ بلکہ کرومائٹ اور کوئلے پر زیادہ تر افغانیوں کا قبضہ ہے جو پاکستان پناہ لینے آئے تھے۔

تو کوئی بتا سکتا ہے کہ بلوچستان کے وہ کون سے وسائل ہیں جو پاکستان کھا رہا ہے؟؟

بلوچستان 16 لاکھ ٹن گندم استعمال کرتا ہے جب کہ 8 لاکھ 65 ہزار ٹن پیدا کرتا ہے۔ بلوچستان کی گندم کی آدھی ضرورت پنجاب اور سندھ پوری کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کی چاؤل کی ضرورت 10 لاکھ ٹن سے اوپر ہے جس میں سے 4 لاکھ 98 ہزار ٹن پیدا کرتا ہے اور باقی ضرورت سندھ اور پنجاب سے پوری کرتا ہے۔

یہی حال باقی چیزوں کا بھی ہے۔ چینی، دوائی اور کپڑا بھی اپنی ضرورت کا دیگر صوبوں سے پورا کرتا ہے۔

اگر وسائل کی بات کی جائے پاکستان نے سال 2021ء میں 2 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم پیدا کی۔ اس میں 1 کروڑ 70 لاکھ ٹن گندم پنجاب نے پیدا کی یہ ملک کی کل پیدوار کا 62٪ پیدا کی۔ یہ وہ روٹی ہے جو ہم سب کھاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب پورے پاکستان کا 55٪ چاول پیدا کرتا ہے۔ کپڑا، دودھ اور گوشت کا بھی سب سے بڑا حصہ پنجاب پیدا کرتا ہے۔ یہ ضروریات زندگی کی سب سے بنیادی چیزیں ہیں۔

بلوچستان میں قیام پاکستان سے پہلے بجلی بنانے کا کوئی نظام نہ تھا۔ پاکستان نے بلوچستان میں ڈھائی ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کے 5 یونٹس لگائے ہیں۔ جب کہ بلوچستان کی کل ضرورت اس وقت تقریباً 1400 میگاواٹ ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ بلوچستان میں باقی تمام صوبوں سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور اس کی ایک بہت ٹھوس وجہ ہے۔

پورے پاکستان میں بجلی کی سب سے زیادہ چوری بلوچستان میں ہوتی ہے۔ سال 2019ء تک بلوچستان 130 ارب روپے بجلی کا بقایا تھا۔ بلوچستان میں سالانہ کم از کم 10 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے۔ مکران، خضدار، آواران، ماشکیل، پنجگور کے علاقوں میں تو بل دینے کا رواج ہی نہیں ہے۔ کیسکو حکام کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں بجلی کی چوری زیادہ ہے وہیں لوڈ شیڈنگ کرتے ہیں۔ جس کے بعد مقامی آکر سڑکیں بند کر دیتے ہیں تو بجلی دوبارہ آن کر دی جاتی ہے لیکن مجال ہے جو کوئی بل دینے کا سوچے بھی۔ مفت بجلی تو امریکہ اور چین بھی نہیں دے سکتے۔

جیسا کہ شروع میں کہا کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ بلوچستان میں پورے پاکستان میں سب سے کم بارشیں ہوتی ہیں اور سطح مرتفع ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی بہت نیچے ہے۔ پانی کی فراہمی کا واحد طریقہ ڈیم اور نہریں ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں صرف ایک ڈیم تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں اب تک 66 مزید ڈیم بنائے جا چکے ہیں اور پاکستان 100 ڈیم بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی دو تین لاکھ ایکڑ زمین کاشت ہورہی تھی۔ پاکستان کے بنائے گئے آپباشی کے منصوبوں اور دھڑا دھڑ بنائے جانے والے ڈیموں کی بدولت یہ رقبہ 10 لاکھ ایکڑ سے تجاؤز کر چکا ہے۔

پاکستان نے بلوچستان کی پیاس بجھانے کے لیے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ بنایا تھا جو واحد منصوبہ تھا جس سے بلوچستان کی زمین سیراب ہوسکتی تھی۔ اس منصوبے سے بلوچستان کی 7 لاکھ ایکڑ پنجر زمین سیراب ہونی تھی جس کے بعد شائد بلوچستان خوراک میں خود کفیل ہوجاتا ہے۔ لیکن اس منصوبے پر بلوچ سرخوں نے اعتراض کر دیا اور فرمایا کہ اس منصوبے سے بلوچستان کو تو کوئی نقصان نہیں لیکن ہم سندھ اور کے پی کے کے ساتھ اخلاقًا کھڑے ہیں۔

اس عظیم اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے بعد یہی سرخے گھڑے اٹھائے بلوچ خواتین کی تصاویر کے ساتھ ہر جگہ روتے بھی ہیں کہ جی دیکھیں بلوچستان میں پینے کا پانی تک نہیں۔

اس کے بعد پرویز مشرف نے بلوچستان کو کچی کنال کے ذریعے سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس میں پنجاب سے پانی بلوچستان تک پہنچانا تھا۔ یہ منصوبہ بڑی حد تک مکمل ہوچکا ہے اور اس سے بھی بلوچستان کی 5 تا 7 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی ان شاءاللہ۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچستان کا زیر کاشت رقبہ تین گنا کر دیا جائے تاکہ بلوچستان خوراک میں خود کفیل ہوسکے۔

بلوچستان میں آبادیاں کم اور دور افتادہ ہونے کے باؤجود پورے پاکستان میں سب سے اچھی سڑکیں بنائی گئی ہیں جس کے لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ کبھی بلوچستان میں سفر کر کے دیکھیں۔ صرف پچھلے تین سال میں بلوچستان میں 3732 کلومیٹر نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں تھی۔ پاکستان اب تک بلوچستان  میں 24 یونیورسٹیاں بنا چکا ہے۔ جو بدقسمتی سے بی ایس او جیسی سرخوں کی  دہشتگرد تنظیوں کا گڑھ بن گئی ہیں اور وہاں سے نوجوانوں کو ڈاکٹر انجنیر بنانے کے بجائے سرمچار بنا کر پاکستان کے ہی خلاف لڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بڑی تعداد میں سکول اور کالجز بھی بنائے گئے ہیں۔ بلوچ جوانوں کو پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ پر مفت تعلیم دی جاتی ہے جہاں دیگر پاکستانیوں کو لاکھوں روپے فیس دینی پڑتی ہے۔

اسی طرح پاک فوج میں بھی بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے پورے پاکستان میں سب سے نرم شرائط ہیں۔

بلوچستان میں قیام پاکستان کے وقت صرف کوئٹہ میں ایک سرکاری ہسپتال تھا۔ اس وقت بلوچستان میں 134 ہسپتال، 574 ڈسپنسریاں اور 95 زچگی کے مراکز بنائے جا چکے ہیں۔ بلوچستان کی سوا کروڑ آبادی کے لیے 4015 ڈاکٹرز بشمول 1057 سرجن ہیں جو 3000 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔

یہ بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے اپنے مقامی ڈاکٹر حکومت سے نتخواہ لے کر بھی ہسپتالوں میں نہیں بیٹھتے بلکہ بہت سے تو پاکستان سے باہر پریکٹس کرتے ہیں اور ان کی تنخواہیں چل رہی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی کاروائی کی جائے تو 'ڈاکٹروں کا احتجاج' شروع ہوجاتا ہے۔

اس کے بعد بھی اگر آپ کو لگتا ہے کہ بلوچستان میں سکول، ہسپتال یا بجلی وغیرہ کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں تو اٹھاوریں آئینی ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی ذمہ داری بن گئی تھی۔ 14 سال میں بلوچستان کو کئی ہزار ارب روپے کا بجٹ ملا ہے جو ان کی ضرورت سے ہمیشہ زیادہ رہا ہے۔ وہ بجٹ کہاں صرف کیا گیا؟؟ کتنی سڑکیں، سکول اور ہسپتال بنائے گئے؟؟

بلوچستان کی قسمت بدلنے کا سب سے بڑا منصوبہ گوادر پراجیکٹ ہے جس کو سی پیک کی مدد سے چین سے ملایا جارہا ہے۔ گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ یہ سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ یہ پاکستان نے عمان سے پیسوں کے عوض خریدا اور پھر 20 سال بعد بھٹو کے دور میں اس کو بلوچستان میں شامل کر دیا۔ جس کا فائدہ اب پورے بلوچستان کو ہوگا۔

باقی وسائل پر بات ہوگئی اب آخر میں ٹیکسز پر بات کرتے ہیں کیونکہ کوئی سرخا کہہ سکتا ہے کہ ٹیکسز کے پیسے اگر بلوچستان میں لگتے ہیں تو وہ ہمارے اپنے پیسے ہیں کوئی احسان نہیں۔ احسان تو واقعی نہیں کیونکہ پاکستان سب کا ہے۔ لیکن چونکہ یہ لوگ بلوچوں کو اکساتے ہی انہی چیزوں پر ہیں تو آج ہر بات واضح ہوجائے۔

آئیں آپ کو ایک چھوٹا سا لم سم حساب بتاتے ہیں۔ پاکستان نے سال 2020/21 میں کل 4725 ارب روپے ٹیکس جمع کیا جس میں بلوچستان سے بمشکل 100 ارب روپے جمع ہوا۔ یہ پاکستان کے کل جمع کردہ ٹیکس کا محض 2٪ بنتا ہے۔ لیکن بلوچستان کو کل جمع کردہ ٹیکس میں سے 584 ارب روپے ملے اور کسی صوبے نے اعتراض نہیں کیا کہ کیوں؟ یہ کل بجٹ کا 8٪ بنتا ہے۔

ایک اور حساب بھی سن لیں۔

584 ارب روپے اگر بلوچستان کی کل آبادی 1 کروڑ 20 لاکھ پر تقسیم کریں تو فی لاکھ آبادی 4 ارب 86 کروڑ بنتے ہیں۔ لیکن اگر پنجاب کا کل بجٹ 2653 ارب روپے پنجاب کی 11 کروڑ آبادی پر تقسیم کریں تو یہ فی لاکھ 2 ارب 41 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یعنی بلحاظ آبادی بلوچستان کو پنجاب سے دگنا بجٹ ملتا ہے۔ وہ بھی جب وہاں سے ٹیکس کلیکشن یا دیگر کوئی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے حتی کہ بجلی کے بل تک ادا نہیں ہوتے۔

اس مضمون میں پیش کیے گئے حقائق اور اعداوشمار کو کسی بھی طرح چیک کر لیں۔ پھر مجھے بتائیں کہ کیا واقعی پاکستان بلوچستان کے وسائل کھا رہا ہے یا پاکستان بلوچستان کو کھلا رہا ہے؟

اور کیا واقعی بلوچستان محروم ہے؟

مسنگ پرسنز کا معاملہ

جہاں تک مسنگ پرسنز کی بات ہے تو بلوچستان میں یہ معمول بن چکا ہے کہ بلوچ اپنے جوانوں کو یونیوورسٹی پڑھنے بھیج دیتے ہیں۔ جہاں وہ بی ایس او جیسی تنظمیوں یا پرویز ہود بائی یا ندا کرمانی جیسے پروفیسروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں بلوچستان کی محرومی و مظلومی کی داستانیں سنا سنا کر پاکستان کے خلاف تیار کرتے ہیں۔ جس کے بعد وہ بی ایل اے یا بی ایل ایف کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور تربیت لینے افغانستان پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے گھر والے سیدھے جاکر تھانے میں ایف آئی آر کاٹ دیتے ہیں کہ ہمارا بندہ ایجنسیوں سے اٹھایا ہے۔ صرف اس ایف آئی آر کا معاؤضہ 5 ہزار ڈالر چل رہا آجکل۔

اس کے بعد اپنے بھائی یا بیٹے کی تصویر اٹھا کر ماما قدیر کے کیمپ میں بیٹھ جاتے ہیں اور بھائی یا بیٹا افغانستان گوریلا تربیت پاکر بلوچستان میں ہی حملے کرنے لگتا ہے۔ کمیپ میں بیٹھنے والے چند دن بعد امریکہ، کینیڈا یا یورپ کے اسائلم کےلیے اپلائی کر دیتے ہیں کہ ہمارے بھائی بیٹے کو اٹھوانے کے بعد ہمیں بھی ہراساں کیا جارہا ہےاور عمومً اسائلم پا بھی لیتےہیں۔ مسنگ پرسنز بھی اکثر افغانستان سے ہی افغانستان کے کاغذات پر ایران کے راستے یورپ نکل جاتے ہیں۔

سینکڑوں 'مسنگ پرسنز' یا مارے جا چکے ہیں یا سرنڈر کر چکے ہیں جن کی تصاویر لے کر ریاست کو بلیک میل کیا جاتا رہا۔

آپ دنیا کی کسی بھی ریاست کے خلاف جنگ کریں اور اس کو توڑنے کا اعلان کریں تو دنیا کا ہر قانون اس ریاست کو حق دیتا ہے کہ آپ کو مارے بھی پکڑے بھی اور سزا بھی دے۔ یہ حق پاکستان کو بھی حاصل ہے۔ بلوچستان میں لڑنے والی ان تنظمیوں کو امریکہ اور برطانیہ بھی دہشتگرد تنظمیں تسلیم کرچکے ہیں۔

جنگ آزادی کا انجام

بلوچستان میں جنگ خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم نے شروع کی جو خود کانگریسی تھا اور اس کی بیوی افغان شاہی خاندان سے تھی۔ وہ قلات کا الحاق انڈیا کے ساتھ کرنا چاہتا تھا بصورت دیگر آزاد رکھنے پر مصر تھا۔ قلات کے خان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو یہ اپنی افغانی بیوی کے ساتھ افغانستان بھاگ گیا جہاں افغان حکومت نے فوری طور پر اس کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ پاکستان کے خلاف اؤلین دہشتگردی کے ٹریننگ کیمپ بنے اور چھ ماہ بعد پاکستان کی سرحد پر پہلا حملہ کیا اور مار کھا کر واپس گیا۔

یہ بلوچستان کی شورش کا آغاز تھا۔ نہ کوئی حقوق اور محرومی کا نعرہ نا کچھ اور۔ جنگ کی وجہ بھی محض ایک شخص کی ضد دھرمی تھی جو اپنی ریاست قلات سے باغی ہوگیا تھا۔ بعد میں اس شورش اور فساد میں نعرے تبدیل ہوتے گئے اور آج محرومی اور مسنگ پرسنز وغیرہ پہنچے ہیں نیز بات قلات سے آگے بڑھ کر پورے بلوچستان کی آزادی پر آگئی۔

لیکن جس وقت پرنس کریم نے 1948ء میں پاکستان کے خلاف پہلی لشکر کشی کی تھی تو اس کے پاس 1000 بندے تھے اور آج 73 سال بعد بی ایل اے اور بی ایل ایف وغیرہ کی تمام جنگی قوت بھی تقریباً 1000 بندوں پر مشتمل ہے۔ یعنی ان کی طاقت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور پاکستان اس دوران دنیا کی پانچوین بڑی فوجی قوت اور ایٹمی قوت بھی بن چکا ہے۔ آج اس بات کی کوئی امید نہیں رہی ہے کہ بلوچ سرخے کبھی بھی لڑ کر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرسکیں گے۔

دنیا کی تاریخ ناکام مزاحمتوں اور شورشوں سے بھری پڑی ہے۔ سری لنکا جیسے چھوٹے سے ملک میں لبریشن ٹائیگرز اور تامل ایلام کی اتنی بڑی طاقت بن چکی تھی کہ ایک تہائی سرلنکا پر ان کا قبضہ تھا۔ ان کی اپنی ائر فورس بھی تھی جس نے کولمبو پر بمباری بھی کی تھی۔ وہ بھی تین عشروں تک لڑنے کے بعد بلاآخر شکست کھا گئ اور ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ شام کی مزاحمت ہمارے سامنے ہے جنہوں نے پورے شام کو تہس نہس کر دیا اور باآخر شکست کھائی۔ خود پاکستان میں ٹی ٹی پی کی 25 ہزار جنگجو فورس سکڑ کر دو تین ہزار تک آگئی جو افغانستان میں چھپتی پھر رہی ہے۔ وہ خود اور ان کا نظریہ دونوں شکست کھا چکے ہیں۔

جو سرخے بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہیں ان سے عرض ہے کہ بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے ڈھائی لاکھ گوریلے تھے جن کو پورے بنگلہ دیش کی حمایت حاصل تھی۔ ان کی مدد کے لیے انڈیا کی دو لاکھ فوج اور ائر فورس کی پوری قوت آگئی تھی۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کی کل 34000 فوج تھی جن کے پاس ہتھیار اور خوراک تک ختم ہوچکی تھی۔

لیکن بلوچستان کے ایک ہزار کے قریب گوریلوں سے لڑنے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ساڑھے 6 لاکھ کی پاک فوج موجود ہے جن کی پشت پر بلوچستان سمیت پورا پاکستان کھڑا ہے۔

یہ جنگ سرخے کبھی جیت ہی نہیں سکتے۔ وہ خود بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اب یہ لوگ محض کرائے کے قاتل بن چکے ہیں جو انڈیا اور افغانستان کے لیے استعمال ہورہے ہیں جن کا مقصد محض بلوچستان کو غیر مستحکم رکھنا ہے جس حد تک بھی ممکن ہو۔ ان 'مسنگ پرسنز' سے ان سرخوں کے مفادات جڑے ہیں جو ان کو پہاڑوں میں بھیج کر خود پوری دنیا میں ان کے نام پر عیاشیاں کر رہے ہیں۔ ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی وغیرہ سویٹزرلینڈ اور انگلینڈ میں اپنے خاندانوں کے ساتھ محفوظ اور عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ باقی سرخے ان کے ناموں پر غیر ملکی فنڈز وصول کرتے ہیں یا مغربی ممالک کی نیشنلیٹیاں لیتے ہیں۔ سرداروں کو ان سے یہ فائدہ ہے کہ جب تک یہ شورش موجود ہے وہ ریاست کو بلیک میل کر کے زیادہ سے زیادہ پیسے وصول کر سکتے ہیں۔ لہذا اختر مینگل جیسے سردار ان شورشوں کو مزید ہوا دیتے ہیں اور زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خود بلوچوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ ان کے حصے میں صرف تباہی آرہی ہے۔

اور چلیں ایک منٹ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر دیا گیا۔ تو کیا واقعی بلوچستان آزاد اور مستحکم رہ سکتا ہے؟ اس وقت چین دنیا کی نئی سپر پاور بن چکا ہے جس کی فوج بلوچستان کی کل آبادی کے تقریباً برابر ہے۔ اس کو گوادر نامی محفوظ گزرگاہ ہر صورت چاہئے۔ چین کو روکنے کے لیے بلوچستان کیا کرے گا؟

اگر آنے دے گا تو انڈیا اور امریکہ نہیں چھوڑینگے جن کے لیے گوادر موت ہے۔ اگر روکنے کی کوشش کرے گا تو انڈین یا امریکی افواج کو بلوچستان میں بلوائیگا عراق، افغانستان اور کشمیر کی طرح؟

یا یہ چند سو سرمچار چین سے لڑینگے؟

بلوچستان تب ہرصورت میدان جنگ بنے گا۔

ان علاقوں پر تو افغانستان کا بھی دعوی ہے جہاں ان کے سرمچار پناہ لیتے ہیں تبھی وہ ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔ افغانستان کو یہ کیسے روکیں گے؟

ایران کو کیسے روکیں گے؟

بلوچستان کی آدھی آبادی پشتون  اور 17 فیصد براہوی بھی ہیں۔ اگر وہ پاکستان کے ساتھ شامل رہنا چاہیں یا الگ ہونا چاہیں تو افغانستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں اچکزئی وغیرہ کے زیر اثر تو پیچھے کیا بچے گا؟

بلوچستان کے وسائل پر میں پہلے ہی بات کر چکا ہوں کہ بلوچستان اپنی خوارک تک پوری نہیں سکتا۔  

یہ لاحاصل جنگ صرف بلوچوں کو تباہ کرنے کی سازش ہے اور کچھ نہیں۔ اس حوالے سے بلوچوں کو آگہی دینی ہوگی کہ بلوچ نوجوان سرخوں کی آگ کا ایندھن بننا بند کردیں۔

بلوچستان کے پاس کچھ وسائل ضرور ہیں جن سے بلوچ مستفید ہوسکتے ہیں۔ چین اور وسطی ایشائی ریاستوں کے لیے بلوچستان اہم ترین گزر گاہ بن سکتی ہے۔ جس سے بلوچوں کو بیش بہا فائدہ ہوگا اور ان کی نسلیں سنور جائینگی۔ لیکن اس کے لیے بلوچستان میں امن ہونا ضروری ہے۔

بلوچوں کو بلوچستان کے الحاق، وسائل اور محرومی کے حوالے سے اب سچائیاں بتانی ہونگی۔ تاکہ وہ سرخوں کے ہاتھوں میں کھلونا بننا بند ہوں اور پورے پاکستان پر راج کرتے ہوئے اپنی حقیقی آزادی سے مستفید ہو سکیں۔