"القادر ٹرسٹ کیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
 
سطر 142: سطر 142:


عمران خان کا موقف ہے کہ ملک ریاض اور این سی اے میں سیٹلمنٹ ہے جس کی وجہ سے ہم نے اسکو خفیہ رکھا۔  
عمران خان کا موقف ہے کہ ملک ریاض اور این سی اے میں سیٹلمنٹ ہے جس کی وجہ سے ہم نے اسکو خفیہ رکھا۔  
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے کالا دھن پکڑا ملک ریاض کے پاس۔ پھر شہزاد اکبر نے نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے مابین ایک خفیہ معاہدہ کروایا گیا۔ 
عمران خان نے جو کیا اس کو لیگل کور دینے کے لیے عمران خان کے ساتھی نے مشورہ دیا کہ ہم کابینہ سے اپرول لے لیتے ہیں اور بند لفافوں پر دستخط لیتے ہیں۔ 
عمران خان نے اس پر ملک ریاض کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی۔ 
جوں ہی یہ رقوم کے معاملات طے ہوتے ہیں تو القادر ٹرسٹ وجود میں آتا ہے۔ اس کے ٹرسٹی میں عمران خان اور بشری بی بی کے نام ہیں۔ جب مزید لوگوں کی ضرورت پڑی تو فرح گوگی اور ایک ڈاکٹر کا نام ڈال کر بعد میں ہٹا دیا جاتا ہے۔ 


=== حوالہ جات ===
=== حوالہ جات ===

حالیہ نسخہ بمطابق 08:59، 28 اگست 2024ء

القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ 'بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔'

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔

جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔

ملک ریاض پر کرپشن کا کیس[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن مقدمہ اور جرمانہ

سپریم کورٹ کی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا مقدمہ ملک ریاض کا تھا جس میں 16000 ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے پر ان کو 460 ارب روپے جرمانہ کیا گیا۔ ملک ریاض نے کراچی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ اسی کے جرمانے میں عمران خان نے برطانیہ سے وصول شدہ 190 ملین پاؤنڈ ایڈجسٹ کیے تھے۔

چونکہ ڈیلپمنٹ ہوچکی تھی لہذا بحریہ ٹاؤن سے کہا گیا کہ زمین کی قیمت لگائیں جو حکومت پاکستان یا یا سندھ ملیر ڈویزن کو دی جاے گی۔ پھر اس پر بولی لگی جو 460 ارب پر ختم ہوئی۔ یہ رقم بحریہ نے7 سال میں سپریم کورٹ میں جمع کروانی تھی۔

پیپلز پارٹی کا دعوی

کچھ قسطیں جمع ہونے کے بعد جب کوئی ڈیرھ سو ارب اکھٹا ہو گیا تو کہانی میں اور معاملات شروع ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے دعوی کیا کہ یہ رقم سندھ ملیر ڈویژن  کو ملنی چاہئے۔

اب تک جمع کیا گیا جرمانہ

2018 میں یہ فیصلہ آیا تھا کہ 7 سال مطلب 2023 تاک آپ نے 460 ارب ادا کرنے ہیں۔ لیکن اب تک صرف 200 ارب جمع کرائے گئے ہیں اور بقایا 260 ارب کے لیے ملک ریاض کی درخواستیں آتی رہیں کہ ہمیں مزید وقت دیا جائے۔

یاد رہے جو 200 ارب جمع ہوا ہے اس میں 190 ملین پاونڈ بھی شامل ہے۔ یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ سے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہونی تھی۔ لیکن یہ ملک ریاض کے کھاتے میں جمع کرا دی گئی۔

پی ٹی آئی کی تاریخی حربے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان اور پی ٹی آئی مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ نہ ہو۔ وہ پرانے کیسز کے حوالے ڈھونڈ رہے ہیں۔

القادر ٹرسٹ کیس تاریخ وار واقعات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

القدیر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ہونے والے مزید اہم واقعات تاریخ وار کچھ اس طرح ہیں:

24 جون 2022

  قومی احتساب بیورو (نیب) نے عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر کے خلاف القدیر ٹرسٹ کیس میں تحقیقات شروع کیں۔ اس کیس میں الزام تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ایک بڑی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی۔

5 جولائی 2022

   نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا اور ان سے کیس کے حوالے سے سوالات کیے۔

14 اگست 2022

   نیب نے عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا۔

2 ستمبر 2022

  عمران خان نے نیب کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ سیاسی انتقام کی کارروائی ہے۔

20 اکتوبر 2022

  نیب نے بشریٰ بی بی کو بھی مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

15 نومبر 2022

  عمران خان اور بشریٰ بی بی نے عدالت میں پیش ہو کر ضمانت حاصل کی۔

10 دسمبر 2022

کیس کی سماعت کے دوران، نیب نے نئے شواہد پیش کیے۔

5 جنوری 2023

عدالت نے کیس میں مزید تحقیقات کا حکم دیا۔

10 مارچ 2023

عمران خان اور بشریٰ بی بی نے ایک بار پھر عدالت میں پیش ہو کر اپنا دفاع کیا۔

5 مئی 2023

نیب نے کیس میں مزید شواہد جمع کرائے اور دعویٰ کیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے غیر قانونی طور پر مالی فائدے حاصل کیے ہیں۔

10 جون 2023

نیب نے مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے اور کیس کی تحقیقات کو آگے بڑھایا۔

25 جولائی 2023

عدالت نے نیب کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا اور کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

15 ستمبر 2023

عمران خان کے وکلاء نے نیب کے الزامات کے خلاف مزید ثبوت پیش کیے۔

10 اکتوبر 2023

نیب نے عدالت میں ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات کی وضاحت کی گئی۔

5 نومبر 2023

عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران مزید شواہد کی طلب کی اور نیب کو ہدایت دی کہ وہ کیس کی تحقیقات میں تیزی لائیں۔

20 دسمبر 2023

نیب نے ایک اور اہم گواہ کا بیان ریکارڈ کیا جس نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف اہم شواہد فراہم کیے۔

15 جنوری 2024

عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے نیب کو مزید تحقیقات کا حکم دیا۔

5 فروری 2024

نیب نے عدالت میں ایک اور رپورٹ پیش کی جس میں مزید تفصیلات شامل تھیں۔

27 فروری 2024

القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ دونوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔ [1]

10 مارچ 2024

عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دوبارہ طلب کیا اور کیس کی سماعت جاری رکھی۔

15 مئی 2024

القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ھائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عمران خان اور بشری بی بی کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دے دیا۔ [2]

یہ واقعات اب تک کے القدیر ٹرسٹ کیس کی اہم تاریخوں کو بیان کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر التوا ہے اور مزید پیش رفت ہونے کی توقع ہے۔

دوران کیس کچھ سوال و جواب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان سے

نیب سے سوال پوچھا کہ آپ پاکستان کے وزیراعظم تھے اور متنازعہ پراپرٹی ٹائیکون سے ستر کروڑ کے عطیات لینا مفادات کا ٹکراو نہیں تھا؟

عمران خان نے جواب دیا کہ رسول پاکﷺ کی محبت میں القادر یونیورسٹی نیک مشن کیلیے بنائی۔

پھر سوال کیا گیا آپ یا آپ کے خاندان نے القادر ٹرسٹ میں خود کتنا چندہ دیا؟

اس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کرپشن کا پیسہ ملک ریاض کو واپس کیوں کیا؟

اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ میں نے ملک ریاض سے پوچھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ کرپشن کا پیسہ نہیں ہے۔ نیز اس میں ساری کابینہ ملوث ہے۔ آپ سب کو بلائیں۔

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض حسین نے 450 کنال زمین کے ساتھ القادر ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں 28 کروڑ روپے بھی ڈالے جبکہ ٹرسٹ کی سوہاوہ کے قریب عمارت کی تعمیر پر 28 کروڑ 40 لاکھ 32 ہزار روپے الگ سے خرچ کیے۔ملک صاحب نے فرنیچر اور دیگر اشیا کے لیے 51لاکھ 49 ہزار اور 6 لاکھ 48 ہزار الگ سے دئیے۔ 500 کے کمپیوٹرز بھی الگ سے لیکر دئیے۔ [3]

اسلام آباد ھائی کورٹ کے تمام تر ثبوتوں اور شواہد کے باؤجود عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت دے دی۔ [4]

شیخ رشید اور فواد چودھری بیان دے چکے ہیں کہ ان سے بند لفافے پر دستخط کروائے گئے۔ عمران خان نے منع کیا کہ باہر یہ بات کسی سے نہیں کرنی۔ [5]

بحریہ مری کا معاملہ بھی غیر قانونی ہے لیکن وہ ابھی ٹیک اپ نہیں ہوا۔

عمران خان کا موقف ہے کہ ملک ریاض اور این سی اے میں سیٹلمنٹ ہے جس کی وجہ سے ہم نے اسکو خفیہ رکھا۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے کالا دھن پکڑا ملک ریاض کے پاس۔ پھر شہزاد اکبر نے نیشنل کرائم ایجنسی اور ملک ریاض کے مابین ایک خفیہ معاہدہ کروایا گیا۔

عمران خان نے جو کیا اس کو لیگل کور دینے کے لیے عمران خان کے ساتھی نے مشورہ دیا کہ ہم کابینہ سے اپرول لے لیتے ہیں اور بند لفافوں پر دستخط لیتے ہیں۔

عمران خان نے اس پر ملک ریاض کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی۔

جوں ہی یہ رقوم کے معاملات طے ہوتے ہیں تو القادر ٹرسٹ وجود میں آتا ہے۔ اس کے ٹرسٹی میں عمران خان اور بشری بی بی کے نام ہیں۔ جب مزید لوگوں کی ضرورت پڑی تو فرح گوگی اور ایک ڈاکٹر کا نام ڈال کر بعد میں ہٹا دیا جاتا ہے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]