"القادر ٹرسٹ کیس" کے نسخوں کے درمیان فرق
(←دیگر) |
(←دیگر) |
||
سطر 98: | سطر 98: | ||
=== دیگر === | === دیگر === | ||
سپریم کورٹ کی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا مقدمہ ملک ریاض کا تھا جس میں 16000 ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے پر ان کو 460 ارب روپے جرمانہ کیا گیا۔ ملک ریاض نے کراچی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ اسی کے جرمانے میں عمران خان نے برطانیہ سے وصول شدہ 190 ملین پاؤنڈ ایڈجسٹ کیے تھے۔ | |||
نسخہ بمطابق 08:48، 30 مئی 2024ء
القادر ٹرسٹ کیس کیا ہے؟
القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ 'بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔'
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔
جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
القادر ٹرسٹ کیس تاریخ وار واقعات
القدیر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ہونے والے مزید اہم واقعات تاریخ وار کچھ اس طرح ہیں:
24 جون 2022
قومی احتساب بیورو (نیب) نے عمران خان، بشریٰ بی بی اور دیگر کے خلاف القدیر ٹرسٹ کیس میں تحقیقات شروع کیں۔ اس کیس میں الزام تھا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے ایک بڑی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کی۔
5 جولائی 2022
نیب نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا اور ان سے کیس کے حوالے سے سوالات کیے۔
14 اگست 2022
نیب نے عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا۔
2 ستمبر 2022
عمران خان نے نیب کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ سیاسی انتقام کی کارروائی ہے۔
20 اکتوبر 2022
نیب نے بشریٰ بی بی کو بھی مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
15 نومبر 2022
عمران خان اور بشریٰ بی بی نے عدالت میں پیش ہو کر ضمانت حاصل کی۔
10 دسمبر 2022
کیس کی سماعت کے دوران، نیب نے نئے شواہد پیش کیے۔
5 جنوری 2023
عدالت نے کیس میں مزید تحقیقات کا حکم دیا۔
10 مارچ 2023
عمران خان اور بشریٰ بی بی نے ایک بار پھر عدالت میں پیش ہو کر اپنا دفاع کیا۔
5 مئی 2023
نیب نے کیس میں مزید شواہد جمع کرائے اور دعویٰ کیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے غیر قانونی طور پر مالی فائدے حاصل کیے ہیں۔
10 جون 2023
نیب نے مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے اور کیس کی تحقیقات کو آگے بڑھایا۔
25 جولائی 2023
عدالت نے نیب کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا اور کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
15 ستمبر 2023
عمران خان کے وکلاء نے نیب کے الزامات کے خلاف مزید ثبوت پیش کیے۔
10 اکتوبر 2023
نیب نے عدالت میں ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات کی وضاحت کی گئی۔
5 نومبر 2023
عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران مزید شواہد کی طلب کی اور نیب کو ہدایت دی کہ وہ کیس کی تحقیقات میں تیزی لائیں۔
20 دسمبر 2023
نیب نے ایک اور اہم گواہ کا بیان ریکارڈ کیا جس نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف اہم شواہد فراہم کیے۔
15 جنوری 2024
عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے نیب کو مزید تحقیقات کا حکم دیا۔
5 فروری 2024
نیب نے عدالت میں ایک اور رپورٹ پیش کی جس میں مزید تفصیلات شامل تھیں۔
27 فروری 2024
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ دونوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔ [1]
10 مارچ 2024
عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو دوبارہ طلب کیا اور کیس کی سماعت جاری رکھی۔
15 مئی 2024
القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ھائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عمران خان اور بشری بی بی کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دے دیا۔
یہ واقعات اب تک کے القدیر ٹرسٹ کیس کی اہم تاریخوں کو بیان کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں زیر التوا ہے اور مزید پیش رفت ہونے کی توقع ہے۔
دیگر
سپریم کورٹ کی تاریخ میں کرپشن کا سب سے بڑا مقدمہ ملک ریاض کا تھا جس میں 16000 ایکڑ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے پر ان کو 460 ارب روپے جرمانہ کیا گیا۔ ملک ریاض نے کراچی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ اسی کے جرمانے میں عمران خان نے برطانیہ سے وصول شدہ 190 ملین پاؤنڈ ایڈجسٹ کیے تھے۔
جس نے BTK سے کہا اب آپ کوی مناسب قیمت لگا دیں، جو ک حکومت پاکستان کو یا سندھ ملیر ڈویزن کو دی جاے گی
پھر یوں ہوا ک بولی لگی اور بولی لگانے والے ملک ریاض ہی تھے،
ور بولی 460 ارب روپے پر بات ختم ہوی، اور 460 ارب 7 سالوں میں قسطوں پر سپریم کورٹ کو دینی تھی BTK نے
کافی قسط جمع ہونے کے بعد کوی ڈیڈ سو ارب جب اکھٹا ہو گیا، تو کہانی میں اور معاملات شروع ہو گیے سندھ ملیر ڈویزن کو وہ پیسے ملنے چاہیے
2018 یہ فیصلہ آیا تھا 7 سال مطلب 2023 تاک آپ نے 460 ارب ادا کرنے ہیں، لیکن اب تک صرف 200 ارب آے بقایا 260 ارب کی ریاض صحاب کی درخواستیں آتی رہی ک ہمیں مزید وقت دیا جاے
یاد رہے جو 200 ارب جمع ہوا ہے اس میں 190 ملین پاونڈ بھی شامل ہے
یہ وہ رقم تھی جو برتانہ سے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہونی تھی
لیکن یہ ملک ریاض کے خاتے میں جمع کرا دی گئی
اس. معاملے کا ٹیک آپ 18 اکتوبر کو ہو گا
اسکے علاوہ مری BTK میں بھی سپریم کورٹ نے کہا تھا ک وہ بھی الیگل ہے لیکن اسکا کیس اج دن تک ٹیک اپ نہیں ہوا
آپ پاکستان کے وزیراعظم تھے اور متنازعہ پراپرٹی ٹائیکون سے ستر کروڑ کے عطیات لینا مفادات کا ٹکراو نہیں تھا؟ نیب کا سوال رسول پاکﷺ کی محبت میں القادر یونیورسٹی نیک مشن کیلیے بنائی، عمران کا جواب عمران خان اور خاندان نے القادر ٹرسٹ میں کتنا چندہ دیا؟ نیب کا سوال
بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض حسین نے 450 کنال زمین کے ساتھ القادر ٹرسٹ کے اکاؤنٹ میں 28 کروڑ روپے بھی ڈالے جبکہ ٹرسٹ کی سوہاوہ کے قریب عمارت کی تعمیر پر 28 کروڑ 40 لاکھ 32 ہزار روپے الگ سے خرچ کیے۔ملک صاحب نے فرنیچر اور دیگر اشیا کے لیے 51لاکھ 49 ہزار اور 6 لاکھ 48 ہزار 500 کے کمپیوٹرز بھی الگ سے لیکر دئیے۔ [2]
اسلام آباد ھائی کورٹ کے تمام تر ثبوتوں اور شواہد کے باؤجود عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت دے دی۔ [3]
شیخ رشید اور فواد چودھری بیان دے چکے ہیں کہ ان سے بند لفافے پر دستخط کروائے گئے۔ عمران خان نے منع کیا کہ باہر یہ بات کسی سے نہیں کرنی۔ [4]