"سانحہ اے پی ایس" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 252: | سطر 252: | ||
سانحہ اے پی ایس نے بحثیت مجموعی پوری قوم کو دہشتگردوں کے خلاف اکھٹا کیا۔ شہداء کے لواحقین نے بےمثال صبر کا مظاہرہ کیا اور دہشتگردوں کو شکست فاش ہوئی۔ آج وہ سرنڈر کی بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں سرخوں کی شکل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہوا ہے جن کے سینوں میں دل نہیں ہے۔ یہ مفاد پرست اور ظالم لوگ لاشوں کو کیش کرتے ہیں حتی کہ اپنے بچوں کی لاشوں کو بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان سرخوں کا اثر و رسوخ عدلیہ اور میڈیا تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے پاس لمبی لمبی زبانیں ہیں۔ یہ سرخے امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ | سانحہ اے پی ایس نے بحثیت مجموعی پوری قوم کو دہشتگردوں کے خلاف اکھٹا کیا۔ شہداء کے لواحقین نے بےمثال صبر کا مظاہرہ کیا اور دہشتگردوں کو شکست فاش ہوئی۔ آج وہ سرنڈر کی بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں سرخوں کی شکل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہوا ہے جن کے سینوں میں دل نہیں ہے۔ یہ مفاد پرست اور ظالم لوگ لاشوں کو کیش کرتے ہیں حتی کہ اپنے بچوں کی لاشوں کو بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان سرخوں کا اثر و رسوخ عدلیہ اور میڈیا تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے پاس لمبی لمبی زبانیں ہیں۔ یہ سرخے امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ | ||
=== کیا | === کیا لواحقین کو انصاف ملا؟ === | ||
سانحہ اے پی ایس کے لواحقین کے لیے اکثر انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب اس وقت جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو بھی لیا اور وزیراعظم پاکستان کو طلب کر کے 4 ہفتوں کا وقت دیا کہ اے پی ایس کے ذمہ داران کا تعئن کریں۔ | سانحہ اے پی ایس کے لواحقین کے لیے اکثر انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب اس وقت جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو بھی لیا اور وزیراعظم پاکستان کو طلب کر کے 4 ہفتوں کا وقت دیا کہ اے پی ایس کے ذمہ داران کا تعئن کریں۔ | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 12:01، 27 مارچ 2023ء
سانحہ اے پی ایس کو افغانستان کا پاکستان کو لگایا گیا سب سے گہرا زخم کہا جا سکتا ہے۔ یہ حملہ کرنے والے افغانی تھے، پلاننگ افغانستان میں ہوئی، حملے کے دوران رابطہ افغانستان سے تھا، پاکستان میں حملہ آوروں کے سہولت کار افغانی تھے، حملہ آور تنظیم کا مرکز بھی افغانستان تھا۔ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ خراسانی کو افغانستان نے چار گھر دے رکھے ہیں اور دوران اٹیک حملے کو لیڈ کرنے والا نعمان شاہ ہلمند بھی افغانی تھا۔ حملے پر پوری دنیا روئی لیکن افغانی واحد قوم ہیں جو اس حملے پر بھی " خواند ی شتہ" کے سٹیٹس سوشل میڈیا پر لگاتے نظر آئے۔
افغان اسٹیبلسمنٹ اور لر و بر کے علمبرداروں نے ستر سالوں میں پاکستانیوں اور خاص طور پر پشتونوں کو جو زخم لگائے ہیں ان میں اے اپی ایس پر حملہ سب سے گہرا زخم تھا جو شائد کبھی مندمل نہ ہوسکے۔
حملے میں مجموعی طور پر 149 لوگ شہید ہوئے جن 134 بچے تھے۔ جب کہ 121 زخمی ہوئے۔ سکول میں موجود 960 بچوں اور استاتذہ کو پاک فوج نے ریسکیو کر لیا تھا۔
حملے کی تفصیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
جون 2014ء میں دہشت گردوں نے کراچی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر حملہ کر دیا۔ ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی۔ جس کے جواب میں پاک فوج نے فاٹا میں آپریشن ضرب عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف سب سے بڑا آپریشن لانچ کیا۔
اس آپریشن کے لیے ملک بھر میں جگہ جگہ سیکیورٹی پر تعئنات فوجیوں کی تعداد کم کر دی گئی اور زیادہ تر فوج آپریشن میں حصہ لینے وزیرستان پہنچ گئی۔
اس آپریشن میں دہشت گردوں سے تمام زیر قبضہ علاقے چھڑا لیے گئے، ان کے مراکز کا خاتمہ کر دیا گیا، کچھ مارے گئے، کچھ پکڑے گئے اور کچھ نے بھاگ افغانستان میں پناہ لے لی۔
اس کے جواب میں 16 دسمبر 2014ء کی صبح دس بجے کے وقت ٹی ٹی پی کے سات دہشت گردوں نے پشاور میں ورسک روڈ پر قائم اے پی ایس سکول پر حملہ کر دیا۔ یہ سکول پشاور کینٹ سے باہر ورسک روڈ پر واقع ہے۔
دہشت گرد آٹومیٹک گنوں، ہینڈ گرنیڈ اور مختلف طرح کے بموں سے لیس تھے۔ دہشت گردوں نے سکول میں گھستے ہی بے دریغ بچوں اور بڑوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔
پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کو پہنچنے میں شائد پندرہ سے بیس منٹ لگے ہونگے۔ کمانڈوز نے سکول میں داخل ہوتے ہی دہشت گردوں پر حملہ کر کے ان کو انگیج کر لیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ مزید بچوں کے پیچھے نہ جاسکے۔
ابتدائی حملے میں ہی تین دہشت گرد ہلاک کر دئے گئے جن میں سے ایک کو سنائپر نے نشانہ بنایا۔ اسی دوران پاک فوج بچوں اور استاتذہ کو مسلسل ریسکیو بھی کرتی رہی۔
اسی دوران پولیس اور پاک فوج کے جوانوں نے سکول کو حصار میں لے لیا تاکہ کوئی دہشت گرد بھاگ نہ سکے۔
باقی بچ جانے والے دہشت گرد مرکزی آڈیٹوریم کی طرف بھاگے جہاں کمروں میں بہت سے بچے ابھی موجود تھے۔
ایس ایس جی کمانڈوز برق رفتاری سے آڈیٹوریم پہنچے جہاں دہشت گردوں سے دوبدو مقابلہ ہوا۔ ان دہشت گردوں میں ایک خودکش حملہ آور تھا۔ اس مقابلے میں بچ جانے والے تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
مقابلے میں دو آفیسرز سمیت پاک فوج کے سات جوان زخمی ہوئے۔
آپریشن کے فوراً بعد ایک سرچ آپریشن کیا گیا تاکہ اگر کہیں دہشت گردوں نے کوئی آئی ای ڈی وغیرہ لگائی ہے تو ان کو ڈی فیوز کیا جاسکے۔
حملے آورز کا پلان یہ تھا نیچے سے اوپر تک اس انداز میں جائنگے کہ کوئی ایک بچہ یا بندہ زندہ نہ بچے۔ وہ اس میں تو ناکام رہے لیکن پھر بھی بہت بڑا نقصان پہنچا گئے۔ سکول میں اس وقت کل بچوں اور سٹاف سمیت 1099 لوگ تھے جن میں سے 960 کو بچا لیا گیا۔
ٹی ٹی پی نے اعلان کیا کہ شہید ہونے والوں بچوں میں سے 50 کے قریب فوجیوں کے بچے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے فضل اللہ نے افغانستان کے علاقے سے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں اس حملہ کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کو ضرب عضب کا بدلہ قرار دیا۔
حملے کے اگلے ہی دن اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی افغانستان کے ایک طوفانی دورے پر گئے جہاں انہوں نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر سے ملاقات کی۔
مختلف مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس ملاقات میں غضبناک راحیل شریف نے اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر کو دھمکی دی کہ مقررہ مدت کے اندر اندر حملے کے ذمہ داروں کے خلاف نتیجہ خیز کاروائی نہ ہوئی تو ہم ہر آپشن استعمال کرینگے اور اافغانستان کے اندر بھی کاروئیاں کرینگے۔
راحیل شریف کے الفاظ تھے " "Wipe out Taliban or we will"
یہ دھمکی کسی حد تک کام کر گئی۔ گو کہ افغانستان نے کچھ تعاون کیا لیکن پاک فوج نے اس کے باؤجود افغانستان میں دہشت گردوں پر براہ راست حملے کیے جس پر اشرف غنی نے احتجاج بھی کیا۔ انہی حملوں میں اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والا عمر خالد خراسانی شدید زخمی ہوا۔ جس کے بارے میں احسان اللہ احسان نے انکشاف کیا تھا کہ اس کو افغان اسٹیبلشمنٹ نے افغانی کاغذات پر علاج کے لیے انڈیا بھیجا۔
پاکستان میں اس حملے کے تمام سہولت کاروں کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
اس حملے کے بعد دہشت گردوں کے لیے رہی سہی ہمدردیاں بھی ختم ہوگئیں۔
افغانیوں کے خلاف بہت بڑا کریک ڈاؤن ہوا جس کی وجہ سے پشاور سے کم از کم تیس ہزار افغانی واپس افغانستان چلے گئے جو کچھ عرصے بعد رفتہ رفتہ دوبارہ واپس آگئے۔
حملہ اس قدر ظالمانہ تھا کہ اس کے بعد خود ٹی ٹی پی میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس حملے پر مذمتی بیان جاری کیا جس پر خالد خراسانی نے اس کی سرزنش کی۔ جس کے بعد احسان اللہ احسان اور ٹی ٹی پی میں دوریاں پیدا ہوئیں۔ یہ دوریاں اتنی بڑھیں کہ احسان اللہ احسان نے پاک فوج کے سامنے سرنڈر کر لیا۔
القاعدہ جیسی تنظیم نے اس حملے کی مزمت کی اور کہا کہ بچوں کو نشانہ بنانا غلط تھا۔
حملے کے بعد صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے شہداء اور زخمیوں میں امدادی رقوم تقسیم کی گئیں۔
اے پی ایس نے جہاں پوری قوم کو جوڑا وہاں کچھ عجیب اور افسوسناک واقعات بھی ہوئے۔ امدادی رقوم پر جھگڑے ہونے لگے۔ فلاں کو زیادہ اور فلاں کو کم ملا جیسی باتیں۔ چند کرداروں نے ریاست کو مزید رقوم کے لیے بلیک میل کرنا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے گروپس بنا کر سیاست کی گئی۔ چند ایک کروڑوں روپے لے کر بھی مزید رقوم کا تقاضا کرنے لگے۔ جب مطالبہ پورا نہ ہوسکا تو اسی فوج کے خلاف زہر اگلا جانے لگا جو ان دہشت گردوں کے خلاف ہمارا اکلوتا سہارا ہے۔
اے پی ایس افغانستان کا پاکستان میں سکول بچوں پر پہلا حملہ نہیں تھا۔
شائد کچھ لوگوں کو یاد ہو 1994ء میں بھی کچھ افغان دہشت گردوں نے ایک سکول بس میں ساٹھ سے ستر بچوں کو ہاسٹیج بنا لیا تھا۔ انہوں نے کئی لاکھ ڈالر رقم مانگی تھی ورنہ بچوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اس وقت بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے آپریشن کیا تھا اور کسی ایک بچے کو بھی گزند پہنچائے بغیر ان دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا تھا۔
اے پی ایس نے ہمیں دہشت گردوں کے خلاف تو متحد کیا۔ لیکن ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی اصل طاقت افغان اسٹیبلشمنٹ کو ہم آج بھی نظر انداز کر رہے ہیں۔
اے پی ایس کے حوالے سے چند سوالات کے جوابات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
پاکستان میں "افغانیت" کی علمبردار کئی قوم پرست تنظیمیں اور گروہ اے پی ایس کے سانحے پر مختلف قسم کے سوالات اٹھا کر اس کو پاکستان یا پاک فوج کی جانب موڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
ان افغان پرست تنظیموں میں پی ٹی ایم سر فہرست ہے۔
پیش خدمت ہیں ان کے کچھ سوالات بمع جوابات
سوال نمبر 1۔ دہشت گرد صرف بڑے بچوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں آڈیٹوریم میں آٹھویں، نویں اور دسویں کے بچے ابتدائی طبی امداد والی ٹریننگ کے سلسلے میں کیوں جمع تھے؟؟
جواب ۔۔۔ اس تربیتی پروگرام کا شیڈول پہلے سے طے تھا۔ تاکہ مہمانوں اور مقررین کو آگاہ کر کے ان کی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جونیز بچوں کی کلاس ایک ہفتہ پہلے کرائی جا چکی تھی اسی آڈیٹوریم میں کیونکہ آڈیٹوریم کی گنجائش اتنی نہیں تھی کہ دونوں کی کلاسیں ایک وقت میں ہوسکیں۔
سوال نمبر 2۔ دہشت گرد سیدھے آڈیٹوریم گئے۔ انہیں کیسے پتہ تھا کہ بڑے طلباء آڈیٹوریم میں ہیں؟
جواب ۔۔۔ دہشت گرد سکول سے ملحق خالی پلاٹ سے سکول میں داخل ہوئے۔ جو آڈیٹوریم کے قریب ترین تھا۔ اس کے بعد وہ تین گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ انہیں صرف اتنا پتہ چل گیا کہ آڈیٹوریم میں بھی طلباء موجود ہیں کیوںکہ سامنے ہی تھا۔ چھوٹے بڑے کا انہیں نہیں علم تھا۔
دو دہشت گرد آڈیٹوریم میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ دو ایڈمنسٹریشن بلاک میں گئے اور باقی کلاسوں میں طلباء کو ڈھونڈنے۔
اگر انہیں پتہ ہوتا کہ سارے بڑے طلبہ آڈیٹوریم میں ہی جمع ہیں وہ تو پورا زور ادھر ہی لگاتے اور یوں تقسیم نہ ہوتے۔
سوال نمبر 3۔ ایک آرمی کا کرنل ابتدائی طبی امداد کی تربیت دے رہا تھا۔ دہشت گردوں نے اس کو قتل کیوں نہیں کیا؟؟
جواب ۔۔ پہلے تو آپ کی یہ انفارمیشن غلط ہے کہ وہ کرنل تھا۔ وہ میجر رینک کا ایک فوجی ڈاکٹر تھا جو بچوں کو ابتدائی طبی امداد پر لیکچر دے رہا تھا۔ جیسے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کی یہ ڈاکٹر قریب ترین دروازے سے نکل کر بھاگ گیا۔ سٹیج کے قریب اسی دروازے سے اس ڈاکٹر کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
باؤجود اس کے کہ وہ ڈاکٹر تھا اس کی بزدلی پر اس کو پاک آرمی نے سزا دی اور وہ ابھی تک جیل میں ہے۔
سوال نمبر 4۔ پولیس کمانڈوز پندرہ منٹ میں اے پی ایس پہنچ گئے تھے۔ ان کو کیوں اندر جانے نہیں دیا گیا تاکہ وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے؟؟
جواب ۔۔۔ دہشت گردوں کو پہلا جواب ایک فوجی نے دیا تھا جو قریب ترین انجنیرنگ یونٹ کا تھا۔ اس کے پاس بلٹ پروف جیکٹ بھی نہیں تھی اور صرف ایک رائفل تھی۔ اس نے بہت سے بچوں کو بچا لیا تھا جب اوپر کلاس روم کی طرف گئے دہشت گردوں نے اس پر فائرنگ شروع کر دی اور اس نے وہیں آڑ لے کر ان سے مقابلہ شروع کر دیا۔
پولیس پہنچی تھی پولیس کمانڈوز نہیں۔ لیکن پولیس اندر جاتے ہوئے ہچکچا رہی تھی۔ یا شائد گھبرا رہی تھی۔ تاہم انہوں نے سکول کو گھیرے میں لے لیا۔ پولیس کو روکنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ یہ بلکل جھوٹ ہے۔
سوال نمبر 5۔ سکول کینٹ میں ہے وہاں دہشتگرد کیسے گھسے؟؟
جواب ۔۔۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ سکول کینٹ ایریا میں نہیں ہے بلکہ ورسک روڈ پر ہے۔ دہشتگرد تو جی ایچ کیو میں بھی گھس گئے تھے جہاں اس وقت کا آرمی چیف کیانی موجود تھا اور بال بال بچا تھا۔
سوال نمبر 6۔ ٹی ٹی پی کا ترجمان احسان اللہ احسان فوج کا مہمان کیوں ہے؟؟
جواب ۔۔۔ احسان اللہ احسان مہمان نہیں بلکہ انڈر کسٹڈی تھا جس نے بلوچ فراریوں اور افرایسیاب خٹک وغیرہ کی طرح جان بخشی کی ضمانت پر سرنڈر کیا تھا۔ بہت اہم سلطانی گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود سینکڑوں جنگجوؤں کے لیے ایک پیغام بھی تھا کہ اگر آپ دہشت گردی بند کر کے سرنڈر کریں تو ریاست پاکستان آپ کو بھی واپسی کا راستہ دے سکتی ہے۔
نیز احسان اللہ احسان نے اے پی ایس حملے کی مذمت کی تھی جب وہ ابھی ٹی ٹی پی میں ہی تھا اور اس مذمت پر اس کے خراسانی سے اختلافات ہوگئے تھے۔
سوال نمبر 7۔ فوجیوں کے بچے اس حملے میں کیوں نہیں مرے۔
جواب ۔۔۔ ظالمو APS کے شہداء میں بریگیڈئیر/کرنل سے سپاہی تک 52 فوجیوں کے بچے، 2 فوجی افسران کی بیگمات اور کئی فوجی بذات خود شامل ہیں۔
آپریشن کرنے والی SSG کی ٹیم کا افسر بھی پشتون تھا جو بچوں کو بچاتے ہوئے زخمی ہوا۔
سوال نمبر 8۔ ایسے تمام کیسز میں کمیشن بنایا جاتا ہے اور انکوائری کرائی جاتی ہے۔ اس حملے میں ایسی انکوائری کیوں نہ کرائی گئی؟؟
جواب ۔۔ آرمی لیول انکوائری کا آرڈر تو اسی شام جاری کر دیا گیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر افغانستان کا دورہ کیا اور وہاں دہشت گردوں کے افغانستان سے مسلسل رابطے اور تمام آپریشن افغانستان سے کنٹرول کیے جانے کے ناقابل تردید ثبوت اشرف غنی اور نیٹو کمانڈر کے سامنے رکھ دئیے۔
ثبوت اتنے مضبوط تھے کہ افغان حکومت نے دو دن میں اس پر کاروائی اور فیڈ بیک دینے کا وعدہ کیا۔
خیبر پختونخواہ کی حکومت نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیشن ترتیب دے دیا تھا۔ جب کہ آل پارٹیز کانفرس کا فوری انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں راحیل شریف نے اس وقت تک حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں بریفنگ دی تھی۔
سب سے بڑھ کر جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس میں نے اپنی رپورٹ جس نے 30 جون 2020ء کو اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ جس میں انہوں نے لکھا کہ ان دنوں دہشتگردی اپنے عروج پر تھی۔ پاک فوج نے بےمثال قربانیاں دے کر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ نیز دہشتگردوں کو مقامی لوگوں نے پناہ دی تھی۔ جب عوام خود دہشتگردوں کو سپورٹ کریں تو ان سے نمٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
لیکن اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ یہ افغانی سرخے کبھی ہمارے سوالوں کے جوابات نہیں دیتے جو بہت سادہ سے ہیں۔
مثلاً
دہشت گرد افغانی کیوں تھے؟
اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کیوں ہوئی؟
دہشت گرد افغانستان سے رابطے میں کیوں تھے؟
حملے کے ماسٹر مائنڈ خراسانی کو افغانستان نے پناہ اور چار گھر کیوں دے رکھے ہیں؟
خراسانی پاک فوج کے حملے میں زخمی ہوا تو اس کو افغانستان نے بغرض علاج انڈیا کیوں بھیجا؟؟
افغانستان سے ہی ٹی ٹی پی سربراہ فضل اللہ نے حملے کا اعترافی بیان ویڈیو بیان کیوں جاری کیا؟
اے پی اسی کی ذمہ داری قبول کرنی والی ٹی ٹی پی آج پی ٹی ایم کو کیوں سپورٹ کرتی ہے اور منظور پسکین کو ہیرو کیوں کہتی ہے؟؟
احسان اللہ احسان کی پھانسی پی ٹی ایم اور موت ٹی ٹی پی مانگتی ہے لیکن ٹی ٹی پی کے باقی تمام دہشتگردوں کی سزائیں کلعدم قرار دینے کے لیے یہی پی ٹی ایم پشاور ھائی کورٹ میں کیسز لڑتی ہے کیوں؟؟
سانحہ اے پی ایس پر سیاست[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اے پی ایس حملے میں 148 خاندان متاثر ہوئے۔ ان میں 144 خاندانوں کہتے ہیں کہ ان کو انصاف مل گیا ہے۔ صرف 4 خاندان ایسے ہیں جو بدستور واویلا کر رہے ہیں کہ ان کو انصاف نہیں ملا۔
ان میں پہلا فضل ایڈوکیٹ نامی وکیل ہے۔ اے این پی سے تعلق ہے۔ پی ٹی ایم کا سینیر راہنما اور مشہور سرخا ہے۔ پاک فوج دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف سانحہ اے پی ایس کے بعد جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت سے درجنوں دہشتگردوں کو رہائی بھی دلا چکا ہے۔
دوسرا قیوم خان بھی وکیل ہے۔ یہ بھی اے این پی سے ہے اور سرخا ہے۔ دیگر سرخوں کی طرح پاک فوج کے سخت خلاف ہے۔
تیسری خاتون فلک ناز نامی نرس ہے جس نے کچھ دن پہلے ایک نئی کہانی سنائی ہے۔ یہ موصوفہ اب کروڑ پتی ہوچکی ہیں۔ اس نے اپنے شوہر تحسین اللہ کو باقی دونوں وکیلوں کے ساتھ لگایا ہوا ہے اور پاک فوج کے خلاف پشاور ھائی کورٹ میں پیٹیشن بھی دائر کرائی ہوئی ہے۔
چوتھا ابراہیم نامی لڑکا افغانی ہے۔ جعلی نادرا کارڈ کے ذریعے پاکستانی بن کر رہ رہا تھا۔ پاک فوج اور ملک ریاض نامی پنجابی کی مدد سے اپنی ماں کے ساتھ لندن بھیجا گیا۔ 5 کروڑ روپے کیش وصول کیے اور علاج کا خرچہ الگ۔ جس کے بعد موصوف نے لندن سے ہی پی ٹی ایم جوائن کر لی اور 'لر و بر یو افغان' کے نعرے لگاتے ہوئے پاک فوج اور پنجابیوں کو گالیاں دینے لگا۔
صرف ان چار خاندانوں کا واویلا ہے جس کو سرخے تمام اے اپی ایس متاثرین کا واویلا بنا کر پیش کررہے ہیں۔ صرف ان کے شور مچانے پر سپریم کورٹ نے سوموٹو بھی لیا اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کو طلب کیا کہ اے پی ایس حملے کا جواب دیں۔ پاکستان کی بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ میڈیا کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں بھی سرخوں کی بھرمار ہے۔
سانحہ اے پی ایس کے 7 سال بعد جب دہشتگرد شکست کھا چکے اور بچ جانے والے سرنڈر کرنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کو اچانک سوموٹو لینے کا خیال آیا اور اوپر بیان کیے گئے تین خانداوں کے واویلے کو جواز بنا کر وزیراعظم کو طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ کےججز اور عمران خان کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
ججز نے درجہ ذیل سوالات کیے۔
لواحقین (تین خاندان) مطمئن نہیں ہیں۔
جن کا احتساب ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا۔
جو اس واقعہ میں ذمہ دار تھے ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟
لواحقین کہہ رہے ہیں کہ جو کمپنسیشن (کروڑوں روپے اور پلاٹس وغیرہ) ملے ہیں وہ واپس لیں اور ہمیں ہمارے بچے واپس کر دیں۔
جب ہمارے بچے ذبح کیے جا رہے تھے تو ریاست کہاں تھی؟
ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان سے مزاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ (یہ اصل تکلیف ہے جس کا جواب آگے دینگے)
جرنیلوں کے عزت کے ساتھ ریٹائرڈ ہونے اور مراعات لینے پر اعتراض۔ (جنہوں نے دہشتگردوں کو شکست دی)
عمران خان نے تفصیلی جواب دینے کی کوشش کی تو ججوں نے بار بار ٹوکا کہ بس ہمیں یہ بتائیں کہ جن کی غفلت کی وجہ سے ہوا ان کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ (یعنی پاک فوج کے خلاف)
جس پر عمران خان نے کہا کہ عدلیہ کے ہی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ تھی جس میں کوئی ایک شق ایسی نہیں تھی جس کے تحت آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جا سکے یا ان کو مورد الزام ٹہرایا گیا ہو۔ یا پھر آپ حکم دیں تو میں ایف آئی آر کٹواتا ہوں۔ اس پر جج صاحبان ٹھنڈے پڑ گئے اور کہا کہ یہ آپ کا کام ہے۔ اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کا کوئی ایک پیرا بھی اس سانحے کا زمہ دار آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کو نہیں ٹہراتا۔
اس کے بعد عمران خان نے مطالبہ کیا کہ عدلیہ ایک اور کمیشن بنائے جو اس پر تحقیقات کرے کہ پاکستان میں 480 ڈرون حملے کس نے کرائے اور 86 ہزار لوگ کیوں شہید ہوئے؟
اس پر ججوں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ آپ ہم سے سوال نہیں کر سکتے۔ خود ذمہ داروں کو تعئن کریں۔
یہ تھا مکالمہ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ججوں کے پاس درحقیقت کچھ نہ تھا اور محض فوج کے بغض میں یا سرخوں کے دباؤ پر یہ ڈراما کیا۔ اب میں عدلیہ کے سامنے چند سوالات رکھتا ہوں۔
اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ حملے روکنا فوج کا کام ہے لہذا فوج کو سزا دی جائے تو ظلم روکنا عدلیہ کا کام ہے۔ اے پی ایس سمیت ہر ظلم کی ایف آئی آر ججوں کے خلاف کیوں نہ کاٹی جائے؟ جرم روکنا پولیس کا کام ہے۔ ہر جرم کی ایف آئی آر پولیس کے خلاف کیوں نہ کاٹی جائے؟
جج کیوں عزت کے ساتھ بھاری بھرکم مراعات لے کر ریٹائرڈ ہورہے ہیں؟
دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج نے جنگ لڑی اور ان کو شکست دے کر اس حالت تک پہنچا دیا کہ آج وہ سرنڈر کرنے پر تیار ہیں۔ اس ساری لڑائی میں عدلیہ نے کیا کردار ادا کیا؟ کیا یہ سچ نہیں ہمارے جج 14 سال تک کسی ایک دہشتگرد کو سزا نہیں سنا سکے جس کے بعد مجبوراً آرمی عدالتیں بنانی پڑیں؟
کیا یہ سچ نہیں کہ عدلیہ نے آرمی عدالتوں سے سزایافتہ سینکڑوں دہشتگردوں کو چھوڑ دیا بشمول اے پی ایس حملے میں ملوث دہشتگردوں کے؟
اس 20 سالہ جنگ میں اے پی ایس جیسے درجنوں واقعات ہوئے۔ 86 ہزار لوگ شہید ہوئے جن میں ہزاروں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ ان پر ججوں نے سوموٹو کیوں نہ لیا؟ کیا اس لیے تب زرداری اور نواز شریف کی حکومت تھی؟ اے پی ایس حملے کے وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اس کا نام لیتے جج کیوں ہچکچاتے ہیں؟
کیا واقعی عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کے خلاف کوئی بھی ریمارکس پاس کرسکتی ہے سیاق و سباق سے ہٹ کر بغیر کسی ثبوت کے؟ اور جج جب چاہیں فوج کو نشانہ بنا سکتے ہیں چاہے فوج کے مورال پر جو بھی اثر پڑے؟
کیا کسی جج نے کبھی اس پر غور کیا کہ افواج پاکستان کو دنیا کی 5 بہترین افواج میں سے ایک مانا جاتا ہے جب کہ ہماری عدلیہ دنیا کی 10 بدترین عدالتوں میں سے ایک ہے؟؟
ایک بہترین ادارے کو ٹھیک کرنے کی فکر میں دبلے ہونے والے یہ جج اپنے بدترین ادارے کو ٹھیک کرنے کی فکر کیوں نہیں کرتے؟
ساری دنیا کے جنگی ماہرین دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج کی جنگ کو بہترین کیوں قرار دیتے ہیں؟
وکلاء نے ہسپتال پر حملہ کر کے بےگناہ مریض مار دئیے۔ ان کی جانیں کیا کم تر تھیں؟ اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں ہوا؟
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی وجہ سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر جرمانہ ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا جرمانہ ہے۔ عدلیہ سے یہ جرمانہ کیوں نہ وصول کیا جائے؟
جس راحیل شریف کی باعزت ریٹائرمنٹ پر تکلیف ہورہی ہے اس نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں شکست دی اور مار بھگایا۔ ججوں نے کیا کیا؟ عدلیہ کے جج کون سے کارنامے کے عوض پاکستان میں سب سے بھاری تنخواہیں اور مراعات وصول کر کے ریٹائرڈ ہورہے ہیں؟
جس وقت یہ تین خاندان انصاف نہ ملنے کا واویلا کر رہے تھے اس وقت باقی سینکڑوں خاندان پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ ہم اپنی افواج کے ساتھ ہیں۔ پاک فوج اور ریاست نے وہ سب کیا جو وہ کر سکتی تھی۔ ہم ان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہیں جو اے پی ایس شہداء کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں۔ عدلیہ نے ان سینکڑوں خاندانوں کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟
پاک فوج نے اے پی ایس کے تمام ذمہ داروں کو انجام تک پہنچایا۔ جن کو زندہ گرفتار کیا ان میں سے 5 کو پھانسی دی۔ ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑی اور سینکڑوں جانیں دے کر اس کینسر کو قبائیلی اضلاع سے اکھاڑ پھینکا۔ جب ایک دہشتگرد رہ گیا ہے سپریم کورٹ نے اس کی سزا پر کیوں عمل درآمد رکوایا ہوا ہے؟
لواحقین کو کروڑوں روپے امداد، ڈی ایچ اے کے پلاٹس دینے کے علاوہ علاج کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا گیا۔ جو کبھی واپس نہیں آئے۔ ایسا پاکستان بھر کے دیگر 86000 خاندانوں کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اے پی ایس کے ان 3 خاندانوں کو انصاف نہیں ملا؟
جب سے ٹی ٹی پی نے سرنڈر کا اعلان کیا ہے تب سے سرخوں کو اے پی ایس یاد آیا ہے اور اس پر خوب بکواس کر رہے ہیں۔ چند دن پہلے بلال غوری نامی ایک سرخے نے یوٹیوپ پر ایسے ہی کچھ اعتراضات اٹھائے۔ ایک ایک کر کے اس پر بات کرتے ہیں۔
1۔ بچوں کے قاتل انجام تک نہیں پہنچ سکے۔
"بلکل جھوٹ ہے۔ بچوں کے قاتلوں کو انجام تک پہنچایا گیا۔ ہاں کسی دشمن لشکر کے آخری سپاہی کے قتل تک جنگ جاری نہیں رکھی جاتی۔ دنیا بھر میں ایسی تنظمیں آخر کار سرنڈر کرتی ہیں اور جنگ کا خاتمہ ہوتا ہے۔"
2۔ سنگین غفلت کے مرتکب افراد کو سزا نہیں ملی۔
"اس سے مراد اگر افواج پاکستان یا سیکیورٹی ادارے ہیں تو بتائیں کہ وہ غفلت کہاں ہوئی؟ عدالتی کمیشن رپورٹ ایسی کسی غفلت کی نشاندہی کیوں نہ کر سکی؟ کوئی جان دینے کا فیصلہ کر لے تو جی ایچ کیو کیو سکیورٹی بھی وہ حملہ نہیں روک سکتی۔ سکول پر حملہ کیا مشکل؟ اگر کسی ادارے کے ذمے امن ہے تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیا اقدمات کر رہی ہے۔ اسی پر فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک کام کر رہی ہے یا نہیں۔ اسی طرح اگر عدلیہ کے ذمے ظلم روکنا ہے تو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ انصاف کر رہی ہے کہ نہیں۔ نتائج پر اللہ کے سوال کسی کا کنٹرول نہیں۔"
3۔ فلک ناز کو کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن نے کہا کہ دو بچے مارے گئے تو کیا ہوا؟ اور پیدا کر لو پاکستان میں اور بھی شہدا ہیں۔
"فلک ناز نامی سابق نرس نے اس کے بعد وہ کروڑوں روپے کی امداد کیوں قبول کی؟ پلاٹ کیوں لیا؟ مزید رقم کا کیوں تقاضا کیا؟ نہ ملنے پر پیٹیشن کیوں دائر کی؟ سب سے بڑھ کر ہدایت الرحمن کی یہ بات اس کو آج کیوں یاد آئی؟ ویسے پشتون علاقوں سمیت پاکستان بھر میں یہ معمول ہے کہ کسی کا بچہ مر جائے تو لوگ تسلی دیتے ہوئے دعا دیتے ہیں کہ اللہ آپ کو اور دے۔ اس قسم کے دعائیہ جملے عام ہیں۔ شائد کور کمانڈر نے بھی یہی کہا ہو کہ جس کو آج اس مکار عورت نے توڑ مروڑ کر کچھ اور بنا دیا۔"
4۔ شاہانہ نے فرمایا کہ انہیں کس نے اختیار دیا کہ مزاکرات کریں؟ ہم سے کیوں نہیں پوچھا؟ یہ تو دہشتگردی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
"شاہانہ کا شوہر وکیل ہے۔ اس کے وکیل شوہر نے آج تک اعتراض کیا کہ آرمی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے سینکڑوں دہشتگردوں کو جسٹس وقار سیٹھ نے کیوں چھوڑا؟ کیونکہ وہاں سے پیسے ملنے کی امید نہ تھی؟ فوج اور حکومت کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار 22 کروڑ لوگوں نے دیا ہے جن کے 86000 شہداء ہیں۔ نہ ان کو پلاٹ ملے ہیں نہ کروڑوں روپے اور نہ مفت کے عمرے۔ وہ نہیں چاہتے کہ تمہارے لالچ کی وجہ سے ان کی مزید جانیں جائیں۔ صرف پچھلے تین چار مہینوں میں ٹی ٹی پی کی باقیات کے ہاتھوں پاک فوج 100 کے قریب جوان شہید ہوچکے ہیں۔ ان کی مائیں نہیں ہیں یا ان کو درد نہیں ہوتا؟"
5۔ فلک ناز کہتی ہیں کہ میرے بیٹے محاذ جنگ پر نہیں پڑھنے گئے تھے ان کو شہید نہ کہو۔
"تو فوجیوں کے نکال کر باقی 86000 خاندانوں کے لوگ محاذ جنگ پر گئے تھے؟ کوئی بازاروں میں شہید ہوا، کوئی مساجد میں اور کوئی سڑکوں پر۔ لیکن سب جانتے تھے کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور دشمن ہماری سرحدوں کے اندر لڑ رہا ہے اور سب کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تب عوام اپنی افواج کے ساتھ کھڑی رہی جب تک دشمن کو شکست نہیں دے دی۔"
6۔ فلک ناز کے شوہر تحسین اللہ نے 2018 میں پشاور ھائی کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی جس میں ایک بگھوڑے سپاہی کی ویڈیو پیش کی کہ جس میں وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے پی ایس حملہ فوج نے خود کرایا اور فلاں میجر نے کہا کوئی بچہ نہ بچے۔
"مدثر اقبال نامی یہ سپاہی ایک لڑکی کے ساتھ ملوث تھا اور کورٹ مارشل کے ڈر سے غائب ہوا۔ غائب ہونے کے چند دن بعد اس کی یہ ویڈیو ٹی ٹی پی نے چلائی جس کے امیر فضل اللہ نے ویڈیو بیان کے ذریعے اے پی ایس حملے کا اعلان کیا تھا۔ حملہ آوروں کی گود میں بیٹھ کر حملے کا الزام فوج پر؟"
7۔ احسان اللہ احسان کو اعزاز سید نامی سرخے نے دعوت دی اور ٹویٹر سپیس پر اے پی ایس کے حوالے سے سوال کیا۔ جس پر احسان اللہ احسان نے کہا کہ وہ فوج نے کرایا ہے۔
"سوال یہ ہے کہ احسان اللہ احسان نے اپنے سرنڈر سے پہلے یہ اعلان کیوں نہ کیا کہ یہ حملہ فوج نے کرایا ہے؟ سرنڈر کے بعد یہی کہا تھا کہ ٹی ٹی پی نے کرایا ہے اور اس حملے کی وجہ سے ٹی ٹی پی میں پھوٹ پڑی۔ رفعت اللہ اورگزئی کو دئیے گئے انٹرویو میں بھی یہ انکشاف نہیں کیا کہ فوج نے کرایا ہے"
8۔ فوجیوں کے بچے چھٹی پر تھے اور فوجی جانتے تھے کہ آج حملہ ہوگا۔
"بلکل جھوٹ ہے۔ شہداء میں سب سے زیادہ بچے فوجیوں کے تھے۔ جن میں 10 افسروں کے بچے بھی شامل تھے۔"
سانحہ اے پی ایس نے بحثیت مجموعی پوری قوم کو دہشتگردوں کے خلاف اکھٹا کیا۔ شہداء کے لواحقین نے بےمثال صبر کا مظاہرہ کیا اور دہشتگردوں کو شکست فاش ہوئی۔ آج وہ سرنڈر کی بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں سرخوں کی شکل میں ایک ایسا ناسور پیدا ہوا ہے جن کے سینوں میں دل نہیں ہے۔ یہ مفاد پرست اور ظالم لوگ لاشوں کو کیش کرتے ہیں حتی کہ اپنے بچوں کی لاشوں کو بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان سرخوں کا اثر و رسوخ عدلیہ اور میڈیا تک پھیلا ہوا ہے اور ان کے پاس لمبی لمبی زبانیں ہیں۔ یہ سرخے امن کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔
کیا لواحقین کو انصاف ملا؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
سانحہ اے پی ایس کے لواحقین کے لیے اکثر انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب اس وقت جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا اعلان کیا گیا۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو بھی لیا اور وزیراعظم پاکستان کو طلب کر کے 4 ہفتوں کا وقت دیا کہ اے پی ایس کے ذمہ داران کا تعئن کریں۔
سانحہ اے پی ایس یا آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث تمام دہشتگردوں اور سہولت کاروں بشمول ماسٹر مائنڈ کو اپنے انجام تک پہنچایا جا چکا ہے ۔ زیادہ تر مارے گئے یا پھر فوجی عدالتوں سے سزائے موت پائی۔
حملے میں ملوث تمام 12 دہشت گردوں کو سیکورٹی فورسز نے انجام تک پہنچایا۔ جن میں سے 6 اہم دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں نے مقدمہ چلایا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ ان میں سے 5 کو پھانسی دے دی گئی جبکہ ایک دہشت گرد کی سزا پر سپریم کورٹ نے عمل درآمد رکوا دیا۔ اس نے اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ آرمی عدالتیں پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔
عتیق الرحمان عرف عثمان، کفایت اللہ عرف کیف قاری، سبیل عرف یحییٰ آفریدی، مجیب الرحمان عرف علی اور مولوی عبدالسلام کمانڈر سمیت 6 دہشت گردوں کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر 6 کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس پر غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن بنایا گیا۔ اس انکوائری کمیشن نے فوج سے بہت سے لوگوں سے تحقیقات کیں۔ حملے کے فوراً بعد قومی اتفاق رائے دہشتگردوں کے خلاف ایک نیشنل ایکشن پلان (NAP) تیار کیا گیا۔ اسی میں دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے لیے آرمی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا کیوںکہ سول عدالتوں سے دہشتگردوں کو سزائیں نہیں سنائی جا رہی تھیں۔
دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج نے اپنی سینکڑوں جانیں دے کر سابقہ فاٹا سمیت بہت سے علاقوں سے ان کو مار بھگایا۔ یہ سارے علاقے دہشتگردوں کا گڑھ بن چکے تھے۔
عدالتی کمشین بننے کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے ان افراد کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جو اسکول کی حفاظت سے متعلق ذمے داری تھے ۔ ان کے خلاف سخت ترین تادیبی کاروائی عمل لائ گئی بشمول ملازمت سے برخاستگی۔
جوڈیشل کمیشن نے 30 جون 2020 کو اپنی رپورٹ پیش کی کہ 2013-2014ء میں پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ ضرب عضب اور خیبر ون آپریشنز کے نتیجے میں فوجی خاندانوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے بارے میں عمومی تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
لیکن اے اپی ایس اسکول کے ملحقہ علاقے کے مکینوں کی جانب سے دہشت گردوں کو فراہم کی جانے والی مدد ناقابل معافی ہے۔ مقامی طور پر دستیاب وسائل اور مدد ہی سے یہ المیہ ممکن ہوا تھا۔ اور دنیا کی کوئ بھی سیکیورٹی ایجنسی اپنے شہریوں کا بیرونی ایجنڈے کا آلا کار بننے کے سامنے لاچار ہوجاتی ہے۔ یوں سکیورٹی فورسز دشمن کے مذموم منصوبے کو بروقت بھانپ نہ سکے ۔
شہید کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ لیکن شہیدوں کے ورثاء اور خاندانوں کو معاوضہ دیا جا سکتا ہے اور اس وقت دیا بھی گیا ۔ جس میں ڈیڑھ ارب روپے کے مساوی حکومت اور پاک فوج کی طرف سے کیش معاوضہ دیا گیا۔ شہید کے لواحقین کو فی کس 12 کروڑ 7 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لواحقین کو فی کس 3 کروڑ 37 لاکھ روپے دئیے گئے۔
خاندان کے تین افراد کو عمرہ، ایک ایک پلاٹ DHA میں، زخمیوں کا اپنا اور شہید بچوں کے ماں باپ کا CMH میں مفت علاج اور کچھ زخمی بچوں کو بیرون ملک علاج کیلئے بھی بھیجا گیا۔ جن میں کچھ لندن میں ہی رہ گئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔ ایک بہن یا بھائی کی APS میں مفت تعلیم دی گئی۔
قاتلوں کو سزاء، سازش میں ملوث تمام افراد کی سرکوبی، کوتاہی برتنے والوں کی سرکوبی، ورثاء کو معاوضے اور آئندہ ایسے کسی واقعے کے نہ ہونے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کے بعد بھی یہ کہنا زیادتی ہے کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہیدوں کو انصاف نہیں ملا۔ ان معصوم شہیدوں کو انصاف حاصل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے انکی شہادت نے اس منتشر قوم کو متحد کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
پشاور میں سانحہ اے پی ایس شہداء کے لواحقین نے ایک پریس کانفرس کی۔ جس میں اعلان کیا کہ وہ کسی کو شہیدوں کے خون پر سیاست نہیں کرنے دینگے۔ جو عناصر یہ کر رہے ہیں وہ اداروں کی بدنامی چاہتے ہیں اور یہ اداروں کے خلاف سازش ہے۔ یہ واویلا کرنے والے صرف تین خاندان ہیں۔
سانحہ مشرقی پاکستان اور سانحہ اے پی ایس دونوں ملک دشمنوں کی کاروائیاں تھیں۔ محب وطن افراد کا خون اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے، اسی لۓ یہ ملک افغانستان، شام یا عراق نہیں بنا۔