"عمران خان توشہ خانہ سکینڈل" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:


الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عمران خان نے 22 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے تحائف توشہ خانہ سے قانونی طریقے سے خریدے۔ ان کو بیچ کو سڑک گئی جو میرے قریب رہنے والے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے اصل قیمت سے بہت کم مہنگے تحائف خریدے گئے۔ میں نے تو گھڑی خریدنے کے لیے 20٪ سے 50٪ رقم ضروری قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ (2) کا اعلان کیا۔         
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عمران خان نے 22 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے تحائف توشہ خانہ سے قانونی طریقے سے خریدے۔ ان کو بیچ کو سڑک گئی جو میرے قریب رہنے والے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے اصل قیمت سے بہت کم مہنگے تحائف خریدے گئے۔ میں نے تو گھڑی خریدنے کے لیے 20٪ سے 50٪ رقم ضروری قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ (2) کا اعلان کیا۔         
21 نومبر 2022ء کو عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ کو ریفرنس بھیجا۔ الیکشن ایکٹ 137، 170 اور 167 کے تحت سیشن جج سے ریفرنس وصول کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی معلومات جمع کرائیں اور حقائق کو چھپا کر مذکورہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان کرپٹ پریٹکسز کے مرتکب ہوئے۔       
       


                
                

نسخہ بمطابق 07:05، 31 اگست 2023ء

توشہ خانہ ایک مشہور زمانہ سکینڈل ہے جس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو تین سال کی سزا اور نااہلی ہوئی۔ پی ڈی ایم نے اگست 2022ء میں کیس فائل کیا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں توشہ خانہ سے حاصل کیے گئے تحائف ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے یہ کیس ٹرائل کورٹ میں بھیجا۔ جس کے بعد اس کیس میں مزید کوئی چیزیں سامنے آئیں۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

توشہ خانہ ایک ادارہ ہے جو کیبنٹ ڈیوژن کے نیچے کام کرتا ہے۔ اس کا قیام 1974ء میں عمل میں لایا گیا۔ توشہ خانے میں ان تمام تحائف کو جمع کیا جاتا ہے جو حکومتی شخصیات، بیوروکریٹس یا آرمی افسران کو دوسرے ممالک کے سربراہان یا آفیشلز کی جانب سے دئیے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ کے قانون کے مطابق ہر تحفے کو توشہ خانہ میں جمع کروانا لازمی ہے۔ جس کے بعد ایف بی آر یا ایک کمیٹی کی مدد سے اس کی قیمت کا تعئن کر کے تحفہ وصول کرنے والا اس کو آدھی قیمت پر خرید سکتا ہے۔

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس

سال 2021ء میں اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی رانا انور خالد نے انفارمیشن کمیشن میں 'معلومات کے حق' والے قانون کے تحت درخواست دی کہ مجھے عمران خان کو توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات دی جائیں۔ کمیشن نے اس کی درخواست منظور کی اور کیبنٹ ڈیوژن کو حکم دیا کہ صحافی کو مذکورہ معلومات فراہم کی جائیں۔ کیبنٹ ڈیوژن نے اس حکم کو ھائی کورٹ میں چلینج کر دیا کہ تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے سے مذکورہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ اپریل 2022ء میں کئی سماعتوں کے بعد ھائی کورٹ نے صحافی کے حق میں فیصلہ کر دیا اور حکم دیا کہ اس کو مذکورہ معلومات فراہم کی جائیں۔

یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا تو عمران خان نے اپنے جواب میں وصول کیے گئے تحائف میں سے 4 تحائف بیچنے کا اعتراف کیا۔ اس نے کہا کہ میں نے 21 ملین ڈالر کے تحفے خریدے تھے جن کو 58 ملین روپوں میں بیچ دیا تھا۔ ان تحائف میں گھڑی، کف لنکس، انگھوٹی اور رولیکس گھڑیاں شامل ہیں۔

عمران خان کے اعتراف اور دستیاب شواہد کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نا اہل قرار دیا۔ یہ نااہلی مذکورہ اسمبلی کے خاتمے تک تھی۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف فوجداری کیس چلانے کی سفارش کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عمران خان نے 22 اکتوبر 2022ء کو اسلام آباد ھائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ میں نے تحائف توشہ خانہ سے قانونی طریقے سے خریدے۔ ان کو بیچ کو سڑک گئی جو میرے قریب رہنے والے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مجھ سے پہلے اصل قیمت سے بہت کم مہنگے تحائف خریدے گئے۔ میں نے تو گھڑی خریدنے کے لیے 20٪ سے 50٪ رقم ضروری قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے لانگ مارچ (2) کا اعلان کیا۔

21 نومبر 2022ء کو عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ٹرائل کورٹ کو ریفرنس بھیجا۔ الیکشن ایکٹ 137، 170 اور 167 کے تحت سیشن جج سے ریفرنس وصول کیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں جھوٹی معلومات جمع کرائیں اور حقائق کو چھپا کر مذکورہ قوانین کی خلاف ورزی کی۔ عمران خان کرپٹ پریٹکسز کے مرتکب ہوئے۔



کل تک جو پی ٹی آئی توشہ خانہ سے خریداری کو ایک 'قانونی جائز' خریداری قرار دے رہی تھی توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک ہونے کے بعد وہ ہر اس شخص کو چور کہہ رہی ہے جس نے کوئی ایک بھی چیز توشہ خانے سے خریدی ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ  مالیت کی چیزیں زرداری نے خریدی ہیں، دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں اور تیسرے نمبر پر نواز شریف ہیں۔

لیکن بات صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں بلکہ جرنیلوں، صحافیوں اور بیوروکریٹ نے بھی ان غیر ملکی تحائف پر ہاتھ صاف کیا ہے گو کہ ان کے حصے میں نسبتاً کم قیمت چیزیں آئیں۔  

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کیس صرف عمران خان کے خلاف ہی بنا ہے۔ باقیوں کے خلاف کسی نے کسی عدالت میں کوئی کیس دائر نہیں کیا حتی کہ ریکارڈ پبلک ہونے کے بعد بھی پی ٹی آئی کسی کے خلاف عدالت جانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

کیوں؟

شائد اس لیے کہ عمران خان کا معاملہ باقیوں سے تھوڑا مختلف ہے۔ عمران خان نے ایک خلیجی ملک سے تحفہ وصول کر کے پھر اس کو کوڑیوں کے مول خرید کر پھر اسی ملک کی مارکیٹ میں دوبارہ بیچ دیا اور 'منافع' کمایا۔ لیکن اس پر بھی کوئی کیس نہیں بنتا کہ تحفہ خریدا کیوں اور بیچا کیوں؟

(گو کہ تھوڑا غیر اخلاقی تھا اسی ملک میں نہ بیچتا)

کیس یہ ہے کہ اس نے جن پیسوں سے تحفہ خریدا وہ اس کے اثاثوں میں ڈکلیئر نہیں تھے،

پھر اس نے دس گنا قیمت پر وہ تحفہ دوبارہ بیچا تو ملنے والی رقم ڈکلئیر نہیں کی،

اور دو سال بعد تب ڈکلئیر کی جب یہ ایشو بن چکا تھا۔ یاد رکھیں نواز شریف کو دس ہزار درہم تنخواہ چھپانے پر نااہل کیا گیا تھا جس پر آج تک پی ڈی ایم روتی ہے کہ نواز شریف کو اس تنخواہ پر ہٹایا گیا جو اس نے کبھی لی ہی نہیں۔

جس مبینہ خریدار نے تحفہ خریدا اس کا دعوی ہے کہ میں نے 10 کروڑ نہیں بلکہ تقریباً 40 کروڑ روپے کے مساوی ادائیگی کی ہے۔ مخالف پارٹیاں اس کی بھی تحقیقات چاہتی ہیں۔ عمران خان نے اپنے کچھ آخری دوروں میں ایک بھی تحفہ توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا۔ جس پر پی ڈی ایم کا دعوی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو تحفے نہ ملیں ہوں۔ وہ اس پر بھی تحقیقات چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عمران خان اس کیس کا ٹرائیل شروع نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ٹی وی پر اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں نے اس رقم سے بنی گالہ میں اپنے گھر تک سڑک بنائی جو باقی لوگوں کے بھی کام آرہی ہے۔ دیکھیں گے کہ عدالت میں اثاثے چھپانے کے خلاف یہ جواز قابل قبول ہوگا یا نہیں!

عمران خان توشہ خانہ کیس!

عمران خان نے تقریباً 6 ارب روپے مالیت کی گھڑی 9 لاکھ 35 ہزار روپے میں توشہ خانہ سے خریدی اور اس کو 60 کروڑ روپے میں بیچ دیا۔ لیکن کیس یہ نہیں کہ گھڑی کیوں خریدی!

اگر محض گھڑی خریدنے کا معاملہ ہوتا تو وہ قانون پیش کرتا اور کیس ختم ہوجاتا۔ اس کیس میں کچھ ایشوز اور ہیں جن کی وجہ سے عمران خان پھنس رہا ہے اور جن کی وجہ سے اس نے ایک سال تک کیس چلنے نہیں دیا اور مسلسل حاضری سے استثنی لیتے رہے۔ سپریم کورٹ اور ھائی کورٹ میں اپیلیں بھی دائر کیں کہ اس کیس کو چلنے سے روکا جائے۔

اس کیس میں درج ذیل ایشوز ہیں۔

عمران خان نے کروڑوں اربوں روپوں کی یہ گھڑی اپنے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کی۔ تب ظآہر کی جب سکینڈل میڈیا کی زینت بنا۔ یاد رہے کہ نواز شریف نے صرف چند ہزار درہم کی تنخواہ چھپائی تھی اور اس پر نااہل کر دیا گیا تھا۔

تحفے کی قیمت کا تخمینہ متعلقہ فورمز سے نہیں لگوایا۔ خود ہی تعئن کر کہ 9 لاکھ 35 ہزار کی قیمت لگا دی۔ جو اصل قیمت کا ہزارواں حصہ ہے شائد۔ یہ بہت بڑی بےایمانی تھی۔

قیمت بھی توشہ خانہ میں جعع نہیں کروائی۔ بلکہ پہلے گھڑی بیچی۔ اس میں ڈالرز کی موجودہ قیمت کے حساب سے 60 کروڑ پاس رکھ کر اس میں سے 9 لاکھ 35 ہزار توشہ خانے میں جمع کروا دیے۔

جمع کروائی گئی رقم بھی عمران خان کے اکاؤنٹس سے ٹرانسفر نہیں ہوئی۔

تحفہ اسی ملک میں بیچ دیا جہاں سے ملا تھا یوں پاکستان کی ریاستی سطح پر سبکی ہوئی۔

تحفہ بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں بھیجا اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی بھی کی۔

تحفے سے حاصل ہونے والی رقم بھی بینکنگ چینل یا قانونی طریقے سے پاکستان نہیں آئی۔

ایک ہاتھ سے تیار کی گئی جعلی رسید پیش کی گئی۔ جس پر جعل سازی کا کیس الگ سے بنتا ہے۔

عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو جتنے بھی تحفے ملے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی توشہ خانہ میں نہیں رہنے دیا اور تمام کے تمام تحفے وہاں سے اٹھا چکے ہیں۔ لیکن ان سب میں سب سے قیمتی سعودی شاہی خاندان سے ملنے والی یہ گھڑی تھی جس کا کیس وہ بھگت رہا ہے۔ عمران خان پر ایک الزام بھی ہے کہ آخری کچھ دوروں میں ملنے والے تحفے اس نے توشہ خانہ بھیجنے کی زحمت بھی نہیں کی اور سیدھے بنی گالہ لے گئے۔

عمران خان کا اس کیس پر ابتدائی موقف یہ تھا کہ یہ کیس نہیں چلنا چاہئے دوست ممالک کے سامنے پاکستان کی سبکی ہوگی۔ اس کے بعد موقف اختیار کیا کہ میرا تحفہ ہے میری مرضی، چاہے بیچوں چاہے رکھوں۔ پھر دعوی کیا کہ میں سارے ثبوت عدالت میں دونگا۔ اب کہتے ہیں کہ میں لاعلم ہوں یہ تو فلاں نے کیا اور فلاں نے کیا۔ فیصلہ خلاف آیا تو موقف اختیار کریںگے کہ ہمارے گواہوں کو سنا نہیں گیا جنکا وہ کیس سے تعلق ہی ثابت نہیں کر سکے۔ پھر کہیں گے ہمیں وقت نہیں دیا گیا اپنی صفائی کا۔ جب کہ کیس سوا سال سے چل رہا ہے جو اپنی بےگناہی کے ثبوت پیش کرنے کو بہت کافی وقت ہوتا ہے۔

اسی معاملے پر بشری بی بی اور زلفی بخاری کی اڈیو لیک بھی موجود ہے کہ تحفے دراصل کیسے فروخت کیے جاتے تھے۔ اس کیس میں اثاثہ جات چھپانے، جعل سازی اور خردبرد کرنے کے کئی پہلو ہیں۔ یہ کیس عمران خان کو نااہل بھی کروا سکتا ہے اور جیل بھی بھجوا سکتا ہے۔

تحریر شاہد خان

جج نے فہرست کیوں مسترد کی؟

تب تو یہ پارٹی میں ایکٹیو ہی نہی تھے؟ پارلیمنٹ ھاؤس میں داخل نہین ہوسکتے تھے۔ ورنہ یہ گواہ کب کے پیش کرچکے ہوتے۔ گواہ کہاں ہین؟ گواہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ آپ نے گواہ ساتھ کیوں نہیں لائے؟ ہمیں ٹائم دیں ہم گواہ تیار کرتے ہٰں۔ آپ صرف عدالت کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ حق گواہی سلب کروا لی۔ جج دبنگ جج ہین۔

غیر متعلق گواہوں کو پیش کرنے کے جرم میں حق گواہی سلب کی جاتی ہے۔

عمرا خان کا یارکر نو بال ثابت ہوا۔ وسیم چیمہ صاحب انوالو تھے۔ جس چیز کا علم نہ ہو تو نہیں کہنا چاہئے۔ بطور گواہ پیش ہی نہین کیا۔ اگر عدالت چاہے تو ملٹری سیکٹری کو بلا سکتی ہے۔

بشری بی بی اور زلفی بخاری بچا سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو۔ غیر متعلق گواہ ہیں۔ سیکٹری اطلاع بھی ڈال دیا جو اس وقت بیچ مٰں تھا ہی نہیں۔ سوائے کیس لٹاکنے کی کوشش کی۔ فیس بک پر پوسٹیں بھی جعل سازی ثابت ہوئی پی ٹی آئی۔ ایف آئی اے نے عدالت میں رپورٹ پیش کی ہے۔ سکرین شاٹس کا کوئی یو آر ایل موجود نہیں۔ لگتا ہے جیسے یہ سکرین شاٹ بنائی گئی ہیں بس۔ یہ تو کوئی بھی بنا سکتے ہیں۔ جج ہمایوں دلاؤر کے اکاؤنٹ میں کچھ بھی موجود نہیں۔ اس میں ان کی صرف ذاتی پوسٹیں موجود ہیں۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔

سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے۔ نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔

نیب کے ریفرنس کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 'Li' 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری نے ان قیمتی گاڑیوں کی قیمت منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادا کی ہے۔ ریفرنس میں ان بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں جن سے مبینہ طور پر آصف زرداری نے ادائیگیاں کی ہیں۔

اسی طرح واضح رہے کہ کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی طرح عمران خان پر توشہ خانہ کے حوالے سے ایک ہی جیسا کیس ہے جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ دوسرے حکمرانوں نے غیر اخلاقی کام کیے لیکن غیر قانونی کام نہیں کیے، کیونکہ اس وقت کے قانون کے مطابق وہ ہر تحفے کی قیمت کا بیس فیصد ادا کرتے تھے لیکن عمران خان نے توشہ خانہ کے حوالے سے قانون کی بہت سی خلاف ورزیاں کیں۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اس 20 فیصد سلیب کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا، لیکن الزام ہے کہ قانون بننے کے بعد بھی عمران اور ان کے لوگوں نے 20 فیصد کے پرانے سلیب کے مطابق ادائیگی کی۔

دوسرا یہ کہ قانون کے مطابق ایک کمیٹی نے تحفے کی قیمت کا تخمینہ لگانا تھا لیکن انہوں نے اس کمیٹی سے کبھی تخمینہ نہیں لگوایا اور خود ہی قیمت کا تعین کرتے رہے۔ تیسرا یہ کہ ماضی کے حکمرانوں نے تحفے لیے اور اپنے پاس رکھے۔ چوتھا یہ کہ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے پاس رکھے لیکن بیچنے کے ثبوت سامنے نہیں آئے، جبکہ عمران خان نے انہیں رکھنے کے علاوہ آگے بیچ دیا اور الزام ہے کہ بیرون ممالک میں بھی انہوں نے بیچے۔ پانچویں خلاف ورزی یہ تھی کہ تحفے کی رقم کا بیس فیصد عمران خان کے اکاؤنٹ سے خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی، بلکہ اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی، جسے انہوں نے اپنے اثاثوں میں الیکشن کمیشن کو ظاہر نہیں کیا۔ چھٹا یہ کہ عمران نے یہ تحائف بیرون ملک پرائیویٹ جہاز میں فروخت کے لیے بھیجے اور اس طرح کسٹم قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور فروخت سے حاصل ہونے والی رقم دبئی سے بینکنگ چینل کے ذریعے نہیں آئی۔

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی کے کیس کا حوالہ د یتے ہوا کہا کہ عمران خان کو کئی کروڑ مالیت کی انتہائی مہنگی گھڑی تحفے کے طور پر ملی جسے ان کے دوستوں نے بیرون ملک میں فروخت کیا اور اس کے اوپر انہوں نے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک رسید پاکستان میں تیار کر کے جمع کرائی یعنی جعلسازی بھی کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے نہ صرف تحفہ فروخت کیا بلکہ بعد میں جعلی رسید بھی تیار کی۔

اس طرح اخلاقی لحاظ سے یکساں ہونے کے باوجود عمران خان کا کیس قانونی لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہے۔ اسی لیے وہ عدالت میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس کیس کی وجہ سے ان کے لئے پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو سیاسی شکل دے کر اس سے اپنے لئے سیاسی فائدے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

رواں سال اگست میں الیکشن کمیشن میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایم این ایز کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نااہلی کے لیے ایک ریفرنس بھیجا تھا۔

ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔‘

ریفرنس کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیا۔

س سے قبل سپریم کورٹ 2017 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنے کاغذات نامزدگی میں اپنے بیٹے کی کمپنی ایف زیڈ ای سے قابل ادائیگی رقم ظاہر نہ کرنے پر نااہل کر چکی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق نواز شریف 2013 میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔

تحریر شاہد خان