"بہاولنگر واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
 
سطر 44: سطر 44:


=== دیگر ===
=== دیگر ===
قانوناً سوائے قتل کے کسی جرم میں پولیس کسی فوجی اہلکار کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ فوجی اہلکاروں کا ٹرائل فوجی عدالتیں کرتی ہیں۔ <ref>[https://twitter.com/BrigAshfaqHasan/status/1778489102935175585 فوجیوں کی گرفتاری کا قانون]</ref>  
قانوناً سوائے قتل کے کسی جرم میں پولیس کسی فوجی اہلکار کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ فوجی اہلکاروں کا ٹرائل فوجی عدالتیں کرتی ہیں۔ <ref>[https://twitter.com/BrigAshfaqHasan/status/1778489102935175585 فوجیوں کی گرفتاری کا قانون]</ref>
 
اس واقعہ کے حوالے سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ بہاولنگر کی پولیس قیادت نے آئی جی پنجاب کو بھی اندھیرے میں رکھا۔ <ref>[https://twitter.com/drsaadiazubair/status/1779193518902403224?s=48&t=3lkg3PDIpY18pGCik1rocw آئی جی پنجاب کو بھی اندھیرے میں رکھا]</ref>  


اس واقعے کو پی ٹی آئی نے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جنہوں نے سینکڑوں پولیس والوں کو زخمی اور قتل کیا ہے اور زمان پارک میں پولیس فورس پر پٹرول بموں سے حملے کیے تھے۔  
اس واقعے کو پی ٹی آئی نے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جنہوں نے سینکڑوں پولیس والوں کو زخمی اور قتل کیا ہے اور زمان پارک میں پولیس فورس پر پٹرول بموں سے حملے کیے تھے۔  

حالیہ نسخہ بمطابق 14:19، 13 اپريل 2024ء

ایس ایچ او رضوان کے بارے میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بہاولنگر کے تھانہ مدرسہ کا ایس ایچ او رضوان پہلے پولیس میں سپاہی تھا- 11 سال کی نوکری کے بعد ایک امتحان پاس کرکے اے ایس آئی بنا اور بعد میں ترقی پا کر سب انسپکٹر ہوگیا۔ پولیس میں اس کو 24 سال ہوگئے ہیں اور کئی تھانوں میں ایس ایچ او رہ چُکے ہیں۔ [1]

ایس ایچ او رضوان کے پاس ایک سپاہی علی نام کا ہے۔ علی اور رضوان پولیس میں ایک ساتھ کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے۔ بطور کانسٹیبل 11 سال تک ایک ساتھ کام کیا تھا۔ جہاں بھی کوئی اطلاع یا ریڈ ہوتا ایس ایچ او رضوان کانسٹیبل علی کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ [1]

واقعہ کی تفصیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کانسٹیبل علی نے ایک شخص سے پسٹل برآمد کیا اور ایس ایچ او رضوان نے ملزم سے 40 ہزار لے کر اُس کو چھوڑ دیا۔ ملزم نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ اُس نے یہ پسٹل عمران نامی بندے سے خریدا ہے۔ کانسٹیبل علی عمران کو گرفتار کرکے لے آیا اور پوچھ گچھ کے دوران عمران نے بتایا کہ اُس نے پسٹل رفاقت نامی شخص سے خریدا ہے۔ ملزم عمران کو بھی ایس ایچ او رضوان نے 40 ہزار روپے رشوت لے کر چھوڑ دیا۔ [1]

اس کے بعد ایس ایچ او رضوان اور کانسٹیبل علی رفاقت کو گرفتار کرنے گئے۔ رفاقت گھر پر نہیں تھا۔ رفاقت کے بھائی انور سے ایس ایچ او نے ایک لاکھ روپیہ رشوت مانگی بصورت دیگر رفاقت کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ انور نے حامی بھرلی لیکن وہ دوسرے دن ایک لاکھ کا بندوبست نہ کرسکا۔ اس پر ایس ایچ او رضوان سخت ناراض ہوا اور دوبارہ گرفتار کرنے انور اور رفاقت کے گھر چلا گیا۔ انور کا ایک بھائی پاک فوج میں کمانڈو ہے وہ بھی اُس وقت گھر پر موجود تھا۔

گھر پر ایس ایچ او اور گھر والوں کی تکرار ہوئی۔ اس پر اہل محلہ بھی جمع ہوگئے اُن لوگوں نے ایس ایچ او اور کانسٹیبل علی کو پکڑ کر بٹھا لیا کہ ایک لاکھ روپیہ کس چیز کا لینے آئے ہو؟ ایس ایچ او رضوان نے 15 پر فون کرلیا۔ 15 سے ایلیٹ فورس کی تین چار گاڑیاں انور کے گھر پہنچیں اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے سب بندوں کو مار مار کر گاڑیوں میں ڈالا اسی دوران انور کے بزرگ والدہ اور بھابی کو بھی مارا گیا۔ [1]

تھانے لاکر ایس ایچ رضوان نے ایک بار پھر سب پر شدید تشدد کیا اور انور ورک اور دوسرے گرفتار شُدہ افراد کو پیچھے سے پیٹرول بھی ڈالا گیا۔ ان کے کانوں کے پردے پھاڑ دئیے اور ہڈیاں بھی توڑیں۔ ساتھ ساتھ پورے خاندان مرد و زن کل 23 افراد کے خلاف کار سرکار میں مُداخلت کا پرچہ بھی کاٹ دیا۔ ساتھ ہی ڈی پی او صاحب کو بتایاگیا کہ ڈکیتوں کا ایک گروپ پکڑا گیا ہے۔ ڈی پی او صاحب نے ایس ایچ او رضوان کو کہا کہ ان کو تُن کے رکھو۔

پولیس کے بے پناھ تشدد کی وجہ سے انور اور دیگر ساتھیوں جس میں فوج کے حاضر سروس جوان بھی تھے اُن کی حالت خراب ہوگئی۔ حالت اتنی خراب تھی کہ خدشہ تھا کہ ہسپتال نہ لے کر گئے تو ان کی موت ہوجائیگی۔ دوسرے دن انور کے رشتے داروں نے ایس ایچ او رضوان سے رابطہ کیا۔ رضوان نے اس بار اُن سے پانچ لاکھ روپیہ مانگا۔ تھانے سے مایوس ہوکر انور کے رشتے داروں نے ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کردی۔ ہائیکورٹ نے ایس ایچ او کو نوٹس کردیا کہ ملزمان کو ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے۔ ایس ایچ او رضوان نے ڈی پی او کو بتایا کہ عدالت کا ریڈ نہ ہوجائے اور ڈی پی او کی رضامندی سے ملزمان کو تخت محل تھانہ میں منتقل کردیا گیا۔ تھانہ تخت محل کے ایس ایچ او نے جب دیکھا کہ ملزمان کی حالت خراب ہے اور سارے لوگ پولیس کے تشدد کی وجہ سے زخمی ہیں تو ایس ایچ او تخت محل ملزمان کو سول ہسپتال بہاولنگر میں چھوڑ کر چلا گیا۔ [1]

پولیس تشدد کی وجہ سے زخمیوں میں فوج کے جوان بھی تھے انھوں نے ہسپتال سے اپنے یونٹ کمانڈر سے فون پر رابطہ کیا اور یونٹ کمانڈر سول ہسپتال پہنچ گیا اور اُس کو ساری صورت حال کا وہاں پتہ چلا اور اُس نے اپنے سینئر کمانڈ کو ساری صورت حال کا بتایا۔ فوج کے سینئر افسران نے ہسپتال میں زخمیوں سے معلومات لیں اور انور کی والدہ، والد اور بہن کو ایلیٹ فورس کے جوانوں نے زردکوب کیا تھا اور اُن کو لاتین ماری گئی تھیں۔

جس کے بعد فوجی جوانوں نے اپنی مقامی کمانڈ کی اجازت سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر تھانے پر ریڈ کیا۔ وہاں ایس ایچ او رضوان اور اس کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایس ایچ او رضوان کو کان بھی پکڑوائے۔

واقعہ کے بعد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جوں ہی اس واقعہ کی خبر پھیلی پولیس اور فوج کی اعلی قیادت نے نوٹس لیا۔ اس پر جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی۔

پولیس نے ایس ایچ او اور تین دیگر پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے انکوائری شروع کر دی۔

آئی ایس پی آر اور پنجاب پولیس نے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی کہ مشترکہ تحقیقات کر کے معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹا دیا گیا ہے۔ [2]

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پاک فوج پولیس کے حق میں اور پولیس کے جوان پاک فوج کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ [3]

واقعہ پر پروپیگنڈا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پیراملٹری فورس اور پولیس کے درمیان لڑائی کی خبر سب سے پہلے حامد میر نے بڑھا چڑھا کر وائرل کی۔

پنجاب پولیس ایلیٹ فورس کے ایک اہلکار اور پی ٹی آئی سپورٹر محمد فیصل خان بیچ نمبر 6811 بیج نے اپنی وردی کو آگ لگائی جس پر پی ٹی آئی نے دعوی کیا کہ پنجاب پولیس کے اہلکار بہاولنگر واقعہ پر بڑی تعداد میں استعفے دے رہے ہیں۔ لیکن کچھ سوشل میڈیا صارفین نے نشاندہی کی کہ وہ اہلکار پی ٹی آئی کا سپورٹر ہے اور اس کو پی ٹی آئی نے اس کام کے لیے ھائر کیا ہے۔ [4]

پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی نے اس واقعہ پر ایک جیسا ردعمل دیا۔ دونوں جماعتوں نے پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور فوج کی مذمت کی۔

ٹیکسلا کے ایک ایس ایچ او کی بھی ایک مبینہ ویڈیو وائرل کی گئی کہ وہ بھی استعفی دے رہا ہے۔ گمان ہے کہ وہ ویڈیو بھی جعلی ہے۔

پی ٹی آئی نے اے ایس ایف کے ایک اہلکار کی ائرپورٹ پر ایک بچی کو دھکا دینے کی پرانی ویڈیو دوبارہ شئیر کرنی شروع کردی۔ جب کہ اس اہلکار کے خلاف سال پہلے ہی اس ناشائستہ رویے پر محکمانہ کاروائی کی جاچکی تھی۔ [5]

ایک اور یوتھیے پولیس اہلکار کی وڈیو وائرل کی گئی جس میں ایک پولیس افسر پاک فوج کو دھمکیاں دیتے ہوئے فوج کی تراش خراش کی بات کر رہا ہے۔ [6]

حماد اظہر سمیت کئی یوتھیے صحافی بشمول صابر شاکر اور دیگر پی ٹی آئی ایکٹیوسٹس نے پولیس پر ٹی ایل پی ورکرز پر 2021ء میں کیے گئے حملوں کی تصاویر کو بہاولنگر واقعہ سے جوڑ کر پروپیگنڈا کیا۔ [7]

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

قانوناً سوائے قتل کے کسی جرم میں پولیس کسی فوجی اہلکار کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ فوجی اہلکاروں کا ٹرائل فوجی عدالتیں کرتی ہیں۔ [8]

اس واقعہ کے حوالے سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ بہاولنگر کی پولیس قیادت نے آئی جی پنجاب کو بھی اندھیرے میں رکھا۔ [9]

اس واقعے کو پی ٹی آئی نے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا جنہوں نے سینکڑوں پولیس والوں کو زخمی اور قتل کیا ہے اور زمان پارک میں پولیس فورس پر پٹرول بموں سے حملے کیے تھے۔

پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کیا جس کے کزن صمد اچکزئی نے ڈیوٹی پر کھڑے پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی سے اڑا دیا تھا۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]