"عدلیہ میں عمران خان کی سہولت کاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
سطر 30: سطر 30:
29 اگست کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ <ref>[https://www.express.pk/story/2529760/1/ توشہ خانہ کیس میں سزا معطل]</ref>
29 اگست کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ <ref>[https://www.express.pk/story/2529760/1/ توشہ خانہ کیس میں سزا معطل]</ref>


25 ستمبر کو عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو اے کلاس دلوانے کے لیے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کروانے کا حکم دے دیا۔ <ref>[https://ummat.net/845671/ اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل]</ref>  
25 ستمبر کو عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو اے کلاس دلوانے کے لیے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کروانے کا حکم دے دیا۔ <ref>[https://ummat.net/845671/ اٹک سے اڈیالہ جیل منتقل]</ref>


30 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی کی زلفی بخاری کے ساتھ آڈیو لیک معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے اور وفاق سے جواب طلب کیا کہ یہ کون کر رہا ہے اور کیوں؟ <ref>[https://www.express.pk/story/2558901/1/ آڈیو لیکس بابر ستار بشری بی بی]</ref>


28 دسمبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک رکوا دیا۔ <ref>[https://www.dawnnews.tv/news/1219824 سائفر کیس کا ٹرائل رکوا دیا]</ref>


29 دسمبر ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان کو مختلف سیاسی امور میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت دے دی۔ <ref>[https://www.urdunews.com/node/823131 عمران خان سے مشاورت کی اجازت]</ref>


26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ <ref>[https://www.dawnnews.tv/news/1226532 وکلاء سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت]</ref>


سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل میں پندرہ دن کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ  نے حکم دیا کہ عمران خان کو پھر بھی ملاقاتیں کرائی جائیں۔ جب وہ نہیں کرائیں گئیں تو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ پر توہین عدالت لگا دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ <ref>[https://www.aaj.tv/news/30377153 جیل سپرنٹنڈنٹ کی معافی]</ref>
1 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے شہریار آفریدی کو گرفتار کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشن اور تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید و جرمانے کی سزا سنادی۔  <ref>[https://www.urduvoa.com/a/contempt-of-court-islamabad-dc-ssp-operations-slapped-with-prison-sentences-01mar2024/7509482.html شہریار آفریدی کی گرفتاری ڈی سی کو سزا]</ref>
 
27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو سیکیورٹی خدشات کے باؤجود تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 30 مارچ کے جلسے کی اجازت دینے کی ہدایت کردی۔ <ref>[https://www.dawnnews.tv/news/1229552 جلسے کی اجازت] </ref>
 
سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل میں پندرہ دن کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ  نے حکم دیا کہ عمران خان کو پھر بھی ملاقاتیں کرائی جائیں ورنہ آن لائن ملاقاتیں کروائیں جائیں۔ جب وہ نہیں کرائیں گئیں تو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ پر توہین عدالت لگا دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ <ref>[https://www.aaj.tv/news/30377153 جیل سپرنٹنڈنٹ کی معافی]</ref>


=== دیگر ===
=== دیگر ===

نسخہ بمطابق 14:53، 31 مارچ 2024ء

اسلام آباد ھائی کورٹ

11 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے جرمانہ کر دیا جو 15 دن میں جمع کرانا ہوگا۔ [1]

31 اگست کو جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس زیبا دھمکی کیس میں عمران خان کے مضحکہ خیز تحریری جواب پر پی ٹی آئی کو ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ یہ جواب پھر اچھے سے لکھ کر لائیں۔ اس والے جواب سے دکھ ہوا۔ [2]

15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوج کو بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں گرفتار شہباز گل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ جو اس وقت امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دن رات زہر اگل رہا ہے۔ [3]

2 اکتوبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ [4]

24 اکتوبر کو الیکشن کمیشن سے سزا پانے کے باؤجود اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار دے دیا۔ [5]

28 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے وفاقی حکومت کے خلاف سخت ریمارکس دئیے۔ [6]

9 جنوری کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی کے معاملے میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔ [7]

2 فروری کو ٹیریان کیس میں عمران خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا۔ [8]

22 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے بینکنگ کورٹ سے عمران خان کی ضمانت منظور ہونے کے خلاف درخواست مسترد کردی۔ [9]

17 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔ [10]

27 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے بیک وقت 7 مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔ عمران خان کو یہ ضمانتیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دے دیں گئیں۔ [11]

6 اپریل کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان نے سیکیورٹی واپس لینے کو قابل تشویش قرار دیا۔ [12]

4 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل کو قتل کرنے کے الزام سمیت 7 مقدمات میں عمران خان کی 14 دن کی حفاظتی ضمانت کی منظور کر لی۔ [13]

12 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی نئے مقدمے میں بھی 15 مئی تک گرفتار نہ کیا جائے۔ [14]

29 اگست کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ [15]

25 ستمبر کو عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ھائی کورٹ نے عمران خان کو اے کلاس دلوانے کے لیے اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کروانے کا حکم دے دیا۔ [16]

30 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے بشری بی بی کی زلفی بخاری کے ساتھ آڈیو لیک معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے اور وفاق سے جواب طلب کیا کہ یہ کون کر رہا ہے اور کیوں؟ [17]

28 دسمبر کو اسلام آباد ھائی کورٹ نے سائفر کیس کا ٹرائل 11 جنوری تک رکوا دیا۔ [18]

29 دسمبر ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر علی خان کو مختلف سیاسی امور میں عمران خان سے مشاورت کی اجازت دے دی۔ [19]

26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔ [20]

1 مارچ کو اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے شہریار آفریدی کو گرفتار کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشن اور تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ او کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید و جرمانے کی سزا سنادی۔ [21]

27 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو سیکیورٹی خدشات کے باؤجود تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو 30 مارچ کے جلسے کی اجازت دینے کی ہدایت کردی۔ [22]

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اڈیالہ جیل میں پندرہ دن کے لیے ملاقاتوں پر پابندی لگائی گئی۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے حکم دیا کہ عمران خان کو پھر بھی ملاقاتیں کرائی جائیں ورنہ آن لائن ملاقاتیں کروائیں جائیں۔ جب وہ نہیں کرائیں گئیں تو عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ پر توہین عدالت لگا دی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو غیر مشروط معافی مانگنی پڑی۔ [23]

دیگر

عدلیہ نے عمران خان کو جیل میں جتنی سہولیات دیں یہ پاکستان کے قید دیگر ہزاروں قیدیوں میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ [24]

حوالہ جات