"ظل شاہ کا قتل" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا)
سطر 66: سطر 66:


کیا گاڑی پر ایکسڈنٹ کے کوئی نشانات وغیرہ ہیں؟
کیا گاڑی پر ایکسڈنٹ کے کوئی نشانات وغیرہ ہیں؟
=== دیگر ===
پی ٹی آئی راجہ شکیل زمان کی نجی کمپنی کے ڈرائیور جہانزیب کا بیان سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہوا کہ عمران خان نے ظل شاہ کو ہلاک کرنے والے ڈرائیور کو شاباش دی اور اسے ہدایت دی کہ چہرے پر تھوڑی بہت تبدیلی لا کر پھرتے رہو کچھ نہیں ہوتا۔ <ref>[https://twitter.com/imdad_soomro/status/1634452959709786112 راجا شکیل کے ڈرائیور کا بیان]</ref>
=== حوالہ جات ===

حالیہ نسخہ بمطابق 04:21، 15 اکتوبر 2023ء

پی ٹی آئی کارکن احمد بلال عرف ظل شاہ کی لاش کو ایک کالی ویگو اسپتال کے دروازے پر چھوڑ کر بھاگ گئی۔ جس کے کچھ دیر بعد پی ٹی ائی راہنما عمران خان نے ٹویٹ کی کہ ان کے کارکن کو پولیس نے تشدد کر کے مار دیا ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے کالی ویگو کو ایجنسیوں کی گاڑی قرار دے کر فوج کو ذمہ دار ٹہرانا شروع کردیا۔ تاہم بعد میں لاش چھوڑ کر بھاگنے والے بندے پکڑے گئے تو پتہ چلا کہ کالی ویگو اور بندے پی ٹی آئی کے ہیں۔ اس کے اگلے دن ڈاکٹر یاسمین راشد نے ٹی وی پر اعتراف کیا کہ ان کو پہلے دن سے علم تھا کہ کالی ویگو اور بندے انکی اپنی پارٹی کے ہیں۔

پی ٹی آئی کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پی ٹی آئی نے فوری طور پر ظل شاہ کی موت کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی۔ ساتھ ہی کالی ویگو کے حوالے سے ایجنسیوں کو بھی سوشل میڈیا پر ٹرول کیا گیا۔ عمران خان نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ ملکر اس پر باقاعدہ پریس کانفرس کی۔ عمران خان نے ظل شاہ پولیس وین میں ایک ویڈیو شئیر کی اور بتایا کہ اس کو پولیس لے گئی تھی اور گرفتاری کے وقت ٹھیک تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا کہ اس پر تشدد کے نشانات تھے کہ اس کو پولیس نے تشدد کر کے قتل کیا تھا۔

پولیس کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حکومت پنجاب اور پولیس نے پی ٹی آئی کارکن احمد بلال عرف ظل شاہ کی موت کو حادثہ قرار دیا ہے۔ پولیس نے ابتدائی بیان دیا کہ 'ہم گاڑی اور بندوں کو ٹریک کر رہے ہیں۔ جب بندے اور گاڑی پکڑی گئی تو پولیس نے دوسرا بیان جاری کیا کہ پی ٹی آئی کی یاسمین راشد اور عمران خان پہلے دن سے جانتے تھے کہ ضل شاہ کی موت ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئی اور اس کو اسپتال چھوڑ کر جانے والے لوگ اور گاڑی ان کی اپنی پارٹی کی ہے جس کی ٹکر سے ان کی موت ہوئی۔

آئی جی پنجاب نے اس واقعے پر تفصیلی پریس کانفرنس میں مزید کہا ’تمام ملزمان گرفتار ہو چکے جن کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ وارث شاہ روڈ سے گاڑی برآمد کی گئی۔ ’ڈرائیور نے حلیہ بدلنے کے لیے داڑھی شیو کر دی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ ایکسیڈینٹ کا کیس ہے ان کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا گیا۔ واقعہ فورٹریس اسٹیڈیم پل پر پیش آیا، ملزمان کا بیان، تفتیشی ٹیم نے علی بلال کو لانے والی گاڑی کوبھی قبضے میں لے لیا۔'

انھوں نے بتایا کہ ’ایک روز قبل مقتول علی بلال کے والد لیاقت علی نے ویڈیو پیغام میں مجھ سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کی موت کے بارے میں مکمل معلومات دی جائے، تفتیش کی جائے اور انصاف دیا جائے۔ ہماری یہ ذمہ داری تین روز قبل ہی شروع ہو گئی تھی جب 6 بج کر 52 منٹ پر ایک کالے رنگ کی ویگو نے علی بلال کی لاش سروسز ہسپتال پہنچائی۔

پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم میں ’بلنٹ ٹراما اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بہت زوردار ٹکر تھی۔ یہ اس طرح نہیں جو عام طور پر پولیس کے لاٹھی یا ڈنڈے سے مخصوص اعضا پر کیا گیا تشدد ہو۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظل شاہ کی موت کے حوالے سے دونوں چیزو کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کے جسم پر تشدد بھی ہوا ہے لیکن وہ تشدد ایسا نہیں کہ جس سے اس کی موت ہوسکتی ہے۔ تاہم اس پوسٹ مارٹم میں 'بلٹ ٹراما' اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کو زوردار ٹکر لگی تھی جس سے اس کی موت ہوئی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کا اعتراف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر یاسمین راشد نے جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں انکشاف کیا کہ ان کو دو دن پہلے سے پتہ تھا کہ گاڑی اور لوگ انکی اپنی پارٹی کے ہیں۔ اس پر میزبان شہزاد اقبال نے سوال کیا کہ جب آپ کو پتا تھا کہ ظل شاہ کو اسپتال پہنچانے والی گاڑی تحریک انصاف کے عہدے دار راجہ شکیل کی ہے تو میڈيا کو کیوں نہیں بتایا؟

اس سوال پر یاسمین راشد گڑبڑا گئيں اور غصے میں کہا کہ آپ کا خیال ہے کہ میں صرف بیٹھ کر سوشل میڈيا دیکتھی رہتی ہوں؟ میرے پاس اور بھی بہت کام ہوتے ہیں۔

ظل شاہ کے مبینہ قتل کے حوالے سے حقائق چھپانے پر ڈاکٹر یاسمین راشد پر مقدمہ بنایا گیا ہے۔ لیکن لاہور کی عدالت ان کو مسلسل عبوری ضمانتیں دے رہی ہے۔ جس پر ظل شاہ کے خاندان والے احتجاج بھی کر رہے ہیں۔

ظل شاہ کے والدین کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ظل شاہ کے والد نے کہا کہ "میں کسی پر الزام نہیں لگاتا کیونکہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں۔"

ظل شاہ کی والدہ نے کہا کہ "عمران خان کے اپنے بچے حفاظت سے ہیں، میرا بیٹا اس کے لیے قربان ہوگیا۔ مجھے انصاف چاہئے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قتل تحریک انصاف والوں نے ہی کیا ہے۔ مجھے عمران خان سے بس یہ کہنا ہے مجھے میرا بیٹا دے دیں۔ میرا بچہ مار دیا۔ پھر ڈالے میں لے کر پھرتے رہے۔ یاسمین راشد نے عمران خان کو کال کی۔ انہیں کال کرنے کے بجائے میرے بچے کو اسپتال پہنچاتے نا۔ انہوں نے میرے بیٹے کا بائیو ڈیٹا نکلوایا۔"

ظل شاہ کی والدہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمارا منہ بند کرنے کے لیے ہمیں پیسوں کی پیشکش بھی کی۔

ظل شاہ کے والد نے مزید کہا کہ "4:35 یا 5:00 کے قریب مجھ سے آخری رابطہ کیا تھا بیٹے نے کہ 'میں ارسٹ ہوگیا ہوں لیکن جلدی گھر آجاؤنگا۔ آپ پریشان نہ ہونا'۔ اور 7:31 پر خبر آئی کہ آپ کا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ انجان نمبر تھا جس سے کال آئی تھی۔ جس نمبر سے پہلی کال آئی تھی اسی سے شہادت کی اطلاع بھی ملی۔ پی ٹی آئی والوں نے پہلے کہا کہ ہم آپ کو یاسمین راشد سے ملائنگے پھر مجھے خان صاحب کے پاس لے گئے۔"

واقعے کی فوٹیج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ایک نجی ٹی وی کے مطابق ظل شاہ کو وین سے اتارنے کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مقتول کارکن کو ساتھیوں سمیت ناکے سے پہلے اتارا گیا اور چار لوگ ڈیوائیڈر کراس کر کے دوسری طرف چلے گئے۔پل چڑھتے ہی سیاہ رنگ کی گاڑی نے ٹکر ماری جس کی زد میں مقتول کارکن آیا، ڈرائیور جہانزیب اور عمر نے گاڑی سائیڈ پر روک کر ظل شاہ کو ویگو میں ڈالا اور پھر وہاں سے اسپتال روانہ ہوئے جہاں وہ لاش چھوڑ کر فرار ہوگئے۔گاڑی کی مختلف مقامات سے گزرنے کی فوٹیجز بھی پولیس نے حاصل کیں ۔وظل شاہ پولیس گاڑی سے نکل کر فورٹریس پل کی طرف بھاگا تو ویگو ڈالے سے ٹکرا گیا تھا جس پر اسے سی ایم ایچ اسپتال لے جایا گیا ۔ اس کے بعد سروسز ہسپتال پہنچایا گیا اس دوران اس کی موت واقع ہوئی۔ پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے کر مزید تفتیش شروع کردی ہے۔

غیرجانبدار تجزیہ کاروں کی رائے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کچھ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق ظل شاہ کی موت کے حوالے پولیس اور پی ٹی آئی دونوں کا موقف جزوی طور پر درست اور جزوی طور پر جھوٹا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ ظل شاہ کو پولیس دیگر پی ٹی آئی کارکنوں کے سمیت پکڑ کر لے گئی۔ سب کو مارا پیٹا گیا اور ڈرا دھمکا کر چھوڑ دیا گیا۔ اسی مار پیٹ کے نشان ظل شاہ کے جسم پر موجود ہیں دیگر کارکنوں کی طرح۔

لیکن جہاں چھوڑا گیا وہاں سے نکلنے یا بھاگنے کے دوران پی ٹی آئی والوں کی اپنی گاڑی سے ظل شاہ کی ٹکر ہوئی جس کے شواہد پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ملتے ہیں۔ وہ گھبراہٹ میں اس کو اسپتال چھوڑ کر بھاگے اور فوری طور پر اپنی قیادت کو خبر دی۔ جنہوں نے دو دن تک یہ بات چھپائے رکھی کہ گاڑی اور بندے ان کے اپنے تھے۔ کیونکہ ظل شاہ کی موت پر سیاسی بیانیہ بنانا تھا۔

اسی بات پر ظل شاہ کے لواحقین کو بھی یقین ہے اور اس کی والدہ بار بار عمران خان اور پی ٹی آئی کو اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار ٹہرا رہی ہیں۔

ظل شاہ کے لواحقین کو یقین ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی نے انکے بیٹے کی لاش پر سیاست کی ہے۔

ظل شاہ کی موت کے حوالے سے چند سوالات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پی ٹی آئی کے نائب صدر راجا شکیل اس قتل کے اوقات میں کہاں تھے اور کر رہے تھے؟

ان کی کالی ویگو (جس پر فوج کو گالیاں دی گئیں) قلعے کے پاس کیا کر رہی تھی؟

اس کے ڈرائیور اور کارکنوں کو شدید زخمی یا فوت شدہ ظل شاہ ملا تو فوری طور پر انتظامیہ، پولیس یا اپنی اعلی قیادت کو آگاہ کیوں نہ کیا؟

اس کو اسپتال کے پاس پھینک کر کیوں بھاگ گئے؟

جب ظل شاہ کو گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا تب وہ زندہ تھا کہ نہیں؟

اگر زندہ تھا تو کیا اس کی جان بچانے کی کوئی کوشش کی گئی؟

ڈاکٹر یاسمین راشد کو پتہ تھا کہ بدنام زمانہ کالی ویگو ان کے پارٹی کے راجا شکیل کی ہے اور اسپتال پہنچانے والے بندے ان کے اپنے ہیں تو یہ بات دو دن تک چھپائی کیوں؟

حتی کہ پریس کانفرنس میں بھی عمران خان اور  یاسمین راشد نے یہ بات چھپائی، کیوں؟

یہ بات عجیب ہے کہ ظل شاہ کو نامعلوم شخص کے طور پر اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تو اس کے صرف ایک گھنٹے کے بعد عمران خان نے اس کے بارے میں ٹویٹ کیسے کر لی اور عمران خان کو کیسے پتہ چلا اسکا شناختی کارڈ، اس کی حالت اور قتل کی وجوہات وغیرہ؟

اگر اس کی موت ایکسیڈنٹ سے ہوئی ہے تو حادثے کی فوٹیج کہاں ہے؟

کیا گاڑی پر ایکسڈنٹ کے کوئی نشانات وغیرہ ہیں؟

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پی ٹی آئی راجہ شکیل زمان کی نجی کمپنی کے ڈرائیور جہانزیب کا بیان سوشل میڈیا پر سرکولیٹ ہوا کہ عمران خان نے ظل شاہ کو ہلاک کرنے والے ڈرائیور کو شاباش دی اور اسے ہدایت دی کہ چہرے پر تھوڑی بہت تبدیلی لا کر پھرتے رہو کچھ نہیں ہوتا۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]