"ارشد شریف کا قتل" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 9 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ کینیا پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا پولیس غلط بیانی کر رہی ہے اور ارشد شریف کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگادیا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔
=== ارشد شریف کے قتل کے واقعات ===
23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع علی الصبح جویریا صدیقی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی۔


=== کینیا پولیس کا موقف ===
نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور <nowiki>''</nowiki>غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔
ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور <nowiki>''</nowiki> غلط شناخت‘‘  کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔


تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔ بعد میں ملنے والے شواہد نے واضح کر دیا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا قتل تھا۔  
تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔
 
کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف نے وقوعہ کا دن کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقعے ایک دور دراز علاقے مگادی میں ایمو ڈمپ (ایمیونیشن ڈمپ) نامی کیمپ میں دن گزارا تھا۔


=== ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ ===
=== ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ ===
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے بعد مرتب کی گئی 592 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ نیز یہ کہ کینیا کی پولیس نے اس واقعے کے بعد متضاد بیانات جاری کیے۔
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم احمد اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے 592 صفحات کی رپورٹ مرتب کی۔ 


رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔
اس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ 


خرم کے مطابق انہوں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو پولیس نے روڈ بلاک  کر رکھی تھی، جس پر انہوں(خرم) نے سمجھا کہ روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔  اس کے بعد  وہ  رکے بغیر وہاں سے تیزی کے ساتھ گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول  اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو ان کے بھائی نے مشورہ دیا کہ وہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے  رہیں جب تک وہ اپنے خاندانی فارم ہاؤس تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس  کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘
پولیس کے بیانات میں تضاد تھا۔ رپورٹ کے مطابق کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔ 


اس رپورٹ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آیا خرم  احمد کے بیانات مشکوک معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس میں محض اتنا کہا گیا ہے کہ اس کیس میں کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔ تاہم اس بارے میں بھی رپورٹ میں کوئی وضاحت اور تفصیلات جو ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت کی حیثیت رکھتے ہوں، موجود نہیں ہیں۔
خرم احمد اور وقار احمد کے بیانات میں بہت تضاد تھا اور وہ پوری معلومات فراہم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ 


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے پر فائرنگ دو ہتھیاروں سے کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن سے فائرنگ کی گئی اور ان ہتھیاروں سے مجموعی طور پر نو گولیاں چلائی گئیں۔
خرم احمد نے بیان دیا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔ خرم نے رکے بغیر گاڑی چلائی اور فائرنگ کی آواز سنی۔ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔ 


اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے زیر استعمال جو فون تھا وہ برآمد ہوا تو اس کو پاسورڈ لگا ہوا تھا اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پاسورڈ کو کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے اس فون میں موجود ڈیٹا ختم ہو جائے گا جو کہ تحقیقات میں کارآمد ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔


اس رپورٹ میں وقار احمد اور ان کے بھائی خرم احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان نے جو انٹرویو کیے تو ان کے بیانات ایک دوسرے سے نہیں مل رہے تھے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی گاڑی خرم احمد چلا رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔


اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل بتایا جاتا ہے، اس نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔
رپورٹ کے مطابق گاڑی پر دو ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن تھی اور مجموعی طور پر 9 گولیاں چلائی گئیں۔


وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔
ارشد شریف کے فون کو پاسورڈ لگا تھا اور پاسورڈ کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین نے کہا کہ ایسا کرنے سے فون میں موجود ڈیٹا ختم ہوسکتا ہے۔ 


فیکٹ فائنڈٖنگ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے تاہم اس کی تصدیق ہونے کے بارے میں رپورٹ میں کچھ نہیں کہا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل ہے نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔


اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد کو جب فیکٹ فائنڈنگ  کمیٹی نے طلب کیا اور ان سے اس قتل سے متعلق متعدد سوالات کیے تو وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا اس وقت گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور کمیٹی کے ارکان نے جب خرم سے ارشد شریف سے ملاقات اور وہ ان کی سفری تفصیل کے بارے میں پوچھا گیا تو خرم اس سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔


وقوعے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ خرم جو کہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے بتایا کہ جیسے سے سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کیا تو انھیں گولیوں کی آواز سنائی دی اور خرم گولیوں کی آواز سن کر بھاگ گیا۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔
=== خرم احمد اور وقار احمد کا مشکوک کردار ===
ارشد شریف کے قتل میں سب سے مشکوک کردار اس کے میزبان خرم احمد اور وقار احمد کا ہے۔ خرم احمد قتل کے وقت ارشد شریف کے ساتھ تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں کے بیانات میں بہت زیادہ تضاد تھا اور وہ پوری معلومات دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ کینیا کی میڈیا نے انکو بھائی قرار دیا لیکن ان کے رشتے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جس فارم ھاؤس میں ارشد شریف کا قیام تھا وہ وقار احمد کا تھا۔  


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔
ارشد شریف نے ایمو ڈمپ نامی کمپنی کے کیمپ میں وقت تو گزارا تھ اور اس کمپنی کا مبینہ مالک وقار احمد ہیں۔ کمنپیوں کی رجسٹریشن جمع کرنے والی ٹریڈ فورڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کمپنی کی تعریف میں ویب سائٹ نے صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ ’گورنمنٹ کنٹریکٹ‘ ہے اور رابطے کے کالم میں وقار احمد کا نام لکھا ہے۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔
=== تسنیم حیدر کے انکشافات ===
برطانیہ میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے رہنما تسنیم حیدر نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق دعوی کیا کہ ارشد شریف کو نواز شریف اور مریم نواز نے مروایا ہے۔ ن لیگی راہنما نے بتایا کہ ناصر بٹ نامی شخص نواز شریف اور مریم نواز کے لیے غیر قانونی کام کرتا ہے۔ صحافی کے قتل کے لیے پہلے مجھے بولا گیا تھا لیکن میں نے جواب دیا کہ میرے کینیا میں تعلقات نہیں جس کے بعد یہ کام کسی اور کو سونپا گیا۔


رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے
انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے سے قبل ان کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی۔ تین لوگوں نے صحافی پر تشدد کیا اور پھر قتل کر دیا۔ ارشد شریف پر تشدد اور قتل کی ویڈیو مریم نواز کو بھیجی گئی اور وہ ویڈیو میں نے خود ناصر بٹ کے فون پر دیکھی ہے۔
 
واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔


=== پاک فوج کا موقف ===
=== پاک فوج کا موقف ===
جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ کینیا پولیس کا موقف رد کیا گیا اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ ارشد شریف کی نقل و حرکت کے بارے میں تفصیلات جاری کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔  
جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاک فوج نے کینیا پولیس کا موقف رد کیا اور اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ فوج کے پاس ارشد شریف کی نقل و حرکت کی جو معلومات تھیں وہ تفصیلات جاری کیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔  


اس کے بعد درج ذیل سوالات اٹھائے گئے۔
اس کے بعد دونوں ڈی جیز نے درج ذیل سوالات اٹھائے۔


1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟
1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟
سطر 67: سطر 69:


=== ارشد شریف کے خاندان کا موقف ===
=== ارشد شریف کے خاندان کا موقف ===
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو 17 نومبر کو ایک خط لکھا۔ جویریہ صدیقی نے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطر عدالتی کمیشن بنانے کے لیے مدد طلب کی۔ جویریہ صدیقی نے لکھا کہ حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کئی تضادات ہیں جس کے باعث ان کے خاندان نے وہ رپورٹ مسترد کر دی ہے۔
‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔ جہاں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘
ارشد شریف کی والدہ نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھا اور اعلٰی سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے۔ اگر میری استدعا قبول نہ کی گئی تو میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دوں گی۔‘
والدہ ارشد شریف نے لکھا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے جن میں غداری کے مقدمات بھی شامل تھے۔ ’اس وجہ سے ان کی زندگی کو خطرات تھے۔ ان خطرات کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑی، ارشد شریف کی بیوہ اور یتیم بچوں کو انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔‘
والدہ کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس نے تین سے چار مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی روانگی سے قبل وفاقی وزرا نے من گھڑت کہانیاں بنائیں جن کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ یہ بیانات میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ مجھے انصاف کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔
صحافی ارشد شریف کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
6 جون کو ارشد شریف مرحوم کی والدہ نے عمران خان ، فیصل واوڈا ، مراد سعید ، سلمان اقبال ، اور عمران ریاض کو شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائر کر دی۔ اس حوالے سے خاندان کا موقف ہے کہ ہمیں انہوں گھیرا ہوا تھا اور ہمارے بیٹے کی لاش پر سیاست کر رہے تھے۔
=== ارشد شریف کا قاتل کون؟ ===
ارشد شریف کے قتل کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ اس کی وجہ سے کارکنوں میں مزید غم و غصہ بھر گیا جس نے لانگ مارچ کے لیے ایندھن کا کام کیا۔
پاک فوج کو سراسر نقصان ہوا ہے جو پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی ان کے خلاف ایک اور طوفان اٹھا لیا گیا۔ 
البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔
=== دیگر ===
عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ارشد شریف کو عمران خان نے بھی آگاہ کیا تھا کہ اسکی جان کو خطرہ ہے۔ عماد یوسف اور مراد سعید نے بار بار اسکو آگاہ کیا کہ اسے قتل کیا جاسکتا ہے۔
5 اگست 2022ء کو سی آئی ڈی کی جانب سے ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ موصول ہوا۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے گارنٹی دی تھی حفاظتی ضمانت کے ساتھ کہ ارشد شریف کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس لیے اسلام آباد زیادہ محفوظ تھا۔
8 اگست 2022ء کو شہباز گل ایک سکرپٹ اے آر وائی پر پڑھتا ہے۔ جب اچانک شہباز گل بغاؤت کا بیانیہ نکال دیتا ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ تھریٹ الرٹ جعلی تھا۔ اس کو وزیراعلی محمود خان نے انسپکٹر جنرل کاؤنٹر ٹررزم جاوید خان کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
وزیراعلی کا پروٹوکول افسر عمر گل آفریدی اگلے ہی روز ارشد شریف کو پشاور ائرپورٹ لے گیا۔ راستے میں مراد سعید نے لیپ ٹاپ بھی لے لیا حفاظت کے بہانے۔
اے آر وائی نے ٹکٹ کرایا اور دبئی میں رہائش اور قیام و طعام کو بندوبست بھی کیا۔ 20 دن کا ویزہ تھا۔ وہاں سلمان اقبال کے کزنز نے ارشد شریف کے کینیا ویزے کا بندوبست کیا۔ اس ویزے کو وقار نے سپانسر کیا تھا۔ اے آر وائی کے خرم غنی نے ائر پورٹ چھوڑا۔
20 اگست کو آزر بائی جان کے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا۔ کیونکہ مجھے کینیا جانے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔
وقار عجیب کردار تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ 21 اگست کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ آزر بائی جان کا ویزہ لگنے کے باؤجود خرم اور وقار نے مجھے روکے رکھا۔ <ref>[https://twitter.com/HamzaSiddiquiPK/status/1716766307360690196?t=qfxIdte1Kcptcq0ZkmRdEg&s=19 ارشد شریف کی کہانی کی ویڈیو]</ref>
ہارون رشید نے دعوی کیا کہ ارشد شریف کے قتل کا شریف خاندان کو علم تھا اور یہ ایم آئی فائیو نے اپنی تحقیقات سے معلوم کیا۔ <ref>[https://twitter.com/SafinaKhann/status/1712013350412939276 ہارون رشید کا دعوی]</ref>
فیصل واؤڈا نے انکشاف کیا کہ ارشد شریف کے قتل کے ڈانڈے جنرل فیض سے ملتے ہیں۔ عمران خان کو پتہ تھا۔ مراد سعید نے بھی کہا تھا کہ اس ہفتے کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے۔
ارشد شریف عاصم منیر کو سپورٹ کرتا تھا اور اسکو ایماندرا کہتا رہا۔ عاصم منیر کے مخالف ہی اس کے قتل میں ملوث ہونگے۔ مخالف وہی ہیں جو عاصم منیر کے خلاف لابنگ کرتے رہے کہ یہ اہل تشیع ہے۔
=== حوالہ جات ===

حالیہ نسخہ بمطابق 15:23، 9 ستمبر 2024ء

ارشد شریف کے قتل کے واقعات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع علی الصبح جویریا صدیقی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی۔

نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور ''غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔

تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔

کینین میڈیا کے مطابق ارشد شریف نے وقوعہ کا دن کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر واقعے ایک دور دراز علاقے مگادی میں ایمو ڈمپ (ایمیونیشن ڈمپ) نامی کیمپ میں دن گزارا تھا۔

ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم احمد اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے 592 صفحات کی رپورٹ مرتب کی۔

اس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

پولیس کے بیانات میں تضاد تھا۔ رپورٹ کے مطابق کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔

خرم احمد اور وقار احمد کے بیانات میں بہت تضاد تھا اور وہ پوری معلومات فراہم کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔

خرم احمد نے بیان دیا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔ خرم نے رکے بغیر گاڑی چلائی اور فائرنگ کی آواز سنی۔ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔

رپورٹ کے مطابق گاڑی پر دو ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن تھی اور مجموعی طور پر 9 گولیاں چلائی گئیں۔

ارشد شریف کے فون کو پاسورڈ لگا تھا اور پاسورڈ کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین نے کہا کہ ایسا کرنے سے فون میں موجود ڈیٹا ختم ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل ہے نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔

وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔

خرم احمد اور وقار احمد کا مشکوک کردار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ارشد شریف کے قتل میں سب سے مشکوک کردار اس کے میزبان خرم احمد اور وقار احمد کا ہے۔ خرم احمد قتل کے وقت ارشد شریف کے ساتھ تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دونوں کے بیانات میں بہت زیادہ تضاد تھا اور وہ پوری معلومات دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ کینیا کی میڈیا نے انکو بھائی قرار دیا لیکن ان کے رشتے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ جس فارم ھاؤس میں ارشد شریف کا قیام تھا وہ وقار احمد کا تھا۔

ارشد شریف نے ایمو ڈمپ نامی کمپنی کے کیمپ میں وقت تو گزارا تھ اور اس کمپنی کا مبینہ مالک وقار احمد ہیں۔ کمنپیوں کی رجسٹریشن جمع کرنے والی ٹریڈ فورڈ نامی ویب سائٹ کے مطابق یہ کمپنی کینیا میں رجسٹرڈ ہے اور ملٹری سپلائز کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کمپنی کی تعریف میں ویب سائٹ نے صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ ’گورنمنٹ کنٹریکٹ‘ ہے اور رابطے کے کالم میں وقار احمد کا نام لکھا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔

تسنیم حیدر کے انکشافات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

برطانیہ میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے رہنما تسنیم حیدر نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق دعوی کیا کہ ارشد شریف کو نواز شریف اور مریم نواز نے مروایا ہے۔ ن لیگی راہنما نے بتایا کہ ناصر بٹ نامی شخص نواز شریف اور مریم نواز کے لیے غیر قانونی کام کرتا ہے۔ صحافی کے قتل کے لیے پہلے مجھے بولا گیا تھا لیکن میں نے جواب دیا کہ میرے کینیا میں تعلقات نہیں جس کے بعد یہ کام کسی اور کو سونپا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو قتل کرنے سے قبل ان کی ویڈیو ریکارڈ کی گئی۔ تین لوگوں نے صحافی پر تشدد کیا اور پھر قتل کر دیا۔ ارشد شریف پر تشدد اور قتل کی ویڈیو مریم نواز کو بھیجی گئی اور وہ ویڈیو میں نے خود ناصر بٹ کے فون پر دیکھی ہے۔

پاک فوج کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاک فوج نے کینیا پولیس کا موقف رد کیا اور اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ فوج کے پاس ارشد شریف کی نقل و حرکت کی جو معلومات تھیں وہ تفصیلات جاری کیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔

اس کے بعد دونوں ڈی جیز نے درج ذیل سوالات اٹھائے۔

1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟

2۔ کس نے ان کو یقین دلایا کہ کینیا جیسا ملک اس کے لیے محفوظ ہے؟ جب کہ دنیا میں 34 ممالک ایسے ہیں جہاں وہ بغیر ویزے کے جاسکتے تھے۔

3۔ کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کون کر رہا تھا؟

4۔ پاکستان میں اس کے رابطے کس کس سے تھے؟

5۔ وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں اور ان سے ارشد شریف کے رابطے کس نے استوار کرائے؟

6۔ کچھ لوگوں نے لندن میں ارشد شریف سے ملاقاتے کے دعوے کیے تھے۔ وہ لوگ کون ہیں اور انہوں نے یہ دعوے کیوں کیے؟

7۔ ارشد شریف کی موت کینیا کے دور افتادہ علاقے میں ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے بھی ان کو نہیں پہچانا۔  پھر اس کی وفات کی سب سے پہلی اطلاع وہاں سے یہاں کس نے دی اور کس کو دی؟

8۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ ارشد شریف کا قتل 'غلط شناخت' کا ہی واقعہ ہے یا یہ ٹارگٹ کلنگ تھی؟

9. کچھ لوگوں نے اس سفاکانہ قتل کو فورا فوج کی جانب موڑ دیا۔ دیکھنا چاہئے کہ اس قتل سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان؟

ارشد شریف کے خاندان کا موقف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو 17 نومبر کو ایک خط لکھا۔ جویریہ صدیقی نے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطر عدالتی کمیشن بنانے کے لیے مدد طلب کی۔ جویریہ صدیقی نے لکھا کہ حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کئی تضادات ہیں جس کے باعث ان کے خاندان نے وہ رپورٹ مسترد کر دی ہے۔

‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔ جہاں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘

ارشد شریف کی والدہ نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھا اور اعلٰی سطح کا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ میرا پہلا اور آخری خط ہے۔ اگر میری استدعا قبول نہ کی گئی تو میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دوں گی۔‘

والدہ ارشد شریف نے لکھا کہ ان کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے جن میں غداری کے مقدمات بھی شامل تھے۔ ’اس وجہ سے ان کی زندگی کو خطرات تھے۔ ان خطرات کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک سے باہر پناہ لینی پڑی، ارشد شریف کی بیوہ اور یتیم بچوں کو انصاف کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔‘

والدہ کا کہنا ہے کہ کینیا کی پولیس نے تین سے چار مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کی روانگی سے قبل وفاقی وزرا نے من گھڑت کہانیاں بنائیں جن کی وجہ سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ یہ بیانات میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ انھوں نے مزید لکھا کہ مجھے انصاف کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔

صحافی ارشد شریف کی والدہ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانا حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔

6 جون کو ارشد شریف مرحوم کی والدہ نے عمران خان ، فیصل واوڈا ، مراد سعید ، سلمان اقبال ، اور عمران ریاض کو شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائر کر دی۔ اس حوالے سے خاندان کا موقف ہے کہ ہمیں انہوں گھیرا ہوا تھا اور ہمارے بیٹے کی لاش پر سیاست کر رہے تھے۔

ارشد شریف کا قاتل کون؟[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ارشد شریف کے قتل کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ اس کی وجہ سے کارکنوں میں مزید غم و غصہ بھر گیا جس نے لانگ مارچ کے لیے ایندھن کا کام کیا۔

پاک فوج کو سراسر نقصان ہوا ہے جو پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی ان کے خلاف ایک اور طوفان اٹھا لیا گیا۔

البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔

دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ارشد شریف کو عمران خان نے بھی آگاہ کیا تھا کہ اسکی جان کو خطرہ ہے۔ عماد یوسف اور مراد سعید نے بار بار اسکو آگاہ کیا کہ اسے قتل کیا جاسکتا ہے۔

5 اگست 2022ء کو سی آئی ڈی کی جانب سے ارشد شریف کو تھریٹ الرٹ موصول ہوا۔ اسلام آباد ھائی کورٹ نے گارنٹی دی تھی حفاظتی ضمانت کے ساتھ کہ ارشد شریف کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس لیے اسلام آباد زیادہ محفوظ تھا۔

8 اگست 2022ء کو شہباز گل ایک سکرپٹ اے آر وائی پر پڑھتا ہے۔ جب اچانک شہباز گل بغاؤت کا بیانیہ نکال دیتا ہے۔ بعد میں علم ہوا کہ تھریٹ الرٹ جعلی تھا۔ اس کو وزیراعلی محمود خان نے انسپکٹر جنرل کاؤنٹر ٹررزم جاوید خان کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

وزیراعلی کا پروٹوکول افسر عمر گل آفریدی اگلے ہی روز ارشد شریف کو پشاور ائرپورٹ لے گیا۔ راستے میں مراد سعید نے لیپ ٹاپ بھی لے لیا حفاظت کے بہانے۔

اے آر وائی نے ٹکٹ کرایا اور دبئی میں رہائش اور قیام و طعام کو بندوبست بھی کیا۔ 20 دن کا ویزہ تھا۔ وہاں سلمان اقبال کے کزنز نے ارشد شریف کے کینیا ویزے کا بندوبست کیا۔ اس ویزے کو وقار نے سپانسر کیا تھا۔ اے آر وائی کے خرم غنی نے ائر پورٹ چھوڑا۔

20 اگست کو آزر بائی جان کے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا۔ کیونکہ مجھے کینیا جانے کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔

وقار عجیب کردار تھا۔ اس کی دو بیویاں تھیں۔ 21 اگست کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ آزر بائی جان کا ویزہ لگنے کے باؤجود خرم اور وقار نے مجھے روکے رکھا۔ [1]

ہارون رشید نے دعوی کیا کہ ارشد شریف کے قتل کا شریف خاندان کو علم تھا اور یہ ایم آئی فائیو نے اپنی تحقیقات سے معلوم کیا۔ [2]

فیصل واؤڈا نے انکشاف کیا کہ ارشد شریف کے قتل کے ڈانڈے جنرل فیض سے ملتے ہیں۔ عمران خان کو پتہ تھا۔ مراد سعید نے بھی کہا تھا کہ اس ہفتے کچھ بہت بڑا ہونے والا ہے۔

ارشد شریف عاصم منیر کو سپورٹ کرتا تھا اور اسکو ایماندرا کہتا رہا۔ عاصم منیر کے مخالف ہی اس کے قتل میں ملوث ہونگے۔ مخالف وہی ہیں جو عاصم منیر کے خلاف لابنگ کرتے رہے کہ یہ اہل تشیع ہے۔

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]