"چھ ججوں کا خط" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 49: | سطر 49: | ||
یہ خط عمران خان کی عدالتی سہولت کاری کی کڑی قرار دی جارہی ہے۔ | یہ خط عمران خان کی عدالتی سہولت کاری کی کڑی قرار دی جارہی ہے۔ | ||
پی ٹی آئی راہنما شیر افضل مروت نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر کوئی ان کے کام میں مداخلت کر رہا تھا تو انہوں نے ان کو توہین عدالت کے نوٹسز کیوں جاری نہیں کیے؟ <ref>[https://twitter.com/DrSyeda_Sadaf/status/1773425688382476600 شیر افضل مروت کا تبصرہ]</ref> | |||
=== حوالہ جات === | === حوالہ جات === |
نسخہ بمطابق 03:18، 29 مارچ 2024ء
سپریم جوڈیشل کونسل سے درخواست کی ہے کہ ہمیں گائیڈ کیا جائے کہ جب ہم پر ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں تو ان سے کیسے نمٹنا چاہئیے۔
نیز کہ انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کیا کہ کیا یہ ایجنسیوں کی مستقل پالیسی ہے؟
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا کہ اینٹلی جنس ایجنسیاں میرے کیسز میں مجھ پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ جس پر سپریم جوڈیشل کونس ریفرنس بھیج کر اس کو برطرف کر دیا گیا۔
اس وقت یہ ججز شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔
خط میں لگائے گئے الزامات
جسٹس طاہر جہانگیری نے دعوی کیا کہ ایک سال پہلے میرے بیڈروم میں سے کیمرہ نکلا۔ یعنی اس نے لائٹ اتاری تو لائٹ کے نیچے کیمرہ اور سم لگی ہوئی تھی۔
ٹیریان وھائٹ کے کیس کا حوالہ دیا کہ ہمارے دو ججز اس کو ناقابل سماعت قرار دے رہے تھے لیکن پھر ایجنسیوں کا پریشر آیا اور ایک جج دباؤ میں آکر ہسپتال پہنچ گیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کو درخواست دی جس پر عطا بندیال نے کہا میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو فون کر دیا اب نہیں کرینگے تنگ۔
مئی 2023ء میں اسلام آباد کے ایک جج کے داماد کو اغواء کیا گیا۔ اغواء کرنے والوں نے کہا کہ ہم آئی ایس آئی کے لوگ ہیں۔
ہم نے 12 فروری کو چیف جسٹس اسلام آباد ھائی کورٹ کو اس معاملے کی شکایت لیکن انہوں نے کوئی ایکش نہیں لیا۔
خط کے سیاسی پہلو
ججوں نے پیٹیشن دائر نہیں کی بلکہ کھلا خط لکھا جو چیف جسٹس تک پہنچنے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا نے وائرل کر دیا۔
ججوں نے تحقیقاتی کمیشن کے بجائے ججوں کے کنونشن کا مطالبہ کیا گویا کوئی سیاسی جلسہ ہو۔ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مطالبہ لگتا ہے۔
ججز پر الزامات
کئی ماہرین کے مطابق یہ ججز محض فوج اور عدلیہ کی لڑائی چاہتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی لیک ویو لین سوسائیٹی میں پارٹنر ہیں۔ جس پر ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوچکی تھیں۔ اس میں اس کا سارا خاندان پارٹنر ہے۔ لیکن اس سوسائیٹی کی این او سی موجود نہیں۔ اس کے باؤجود اس سوسائیٹی کے 50 کروڑ روپے کے پلاٹوں کی سیل ہوچکی ہے۔ [1]
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیسے ثابت ہوگا کہ کیمرہ لگا تھا اور آئی ایس آئی نے لگایا تھا۔
یہ سوال بھی اٹھا کہ کیمرے کے ساتھ یو ایس بی لگی ہوئی تھی؟ اگر کہیں سم کے ذریعے فوٹیج جارہی تھی تو یو ایس بی لگانے کی کیا ضرورت تھی؟
باقی تینوں ججز کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا گیا کہ وہ اس گروپ کا حصہ کیوں بنے ہیں۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ ججز پر اینٹلی جنس ایجنسیوں کے لوگ دباؤ ڈالتے ہیں جو اگر سچ ہے تو اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یعنی خود بھی علم نہیں کہ سچ ہیں یا جھوٹ؟
دیگر
قانونی ماہرین کے مطابق ان ججز نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔
یہ سوال تمام لوگ اٹھا رہے ہیں کہ ججز کے پاس قانونی طاقت ہے ایسے لوگوں کو سزا سنانے کی تو کیوں نہ سنائی؟
یہ خط سیاسی دنگل بن چکا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی اس کو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے جب کہ حکومت اس کو رد کرچکی ہے۔ ایسے میں جب ان ججز کا سارا تکیہ پی ٹی آئی پر ہے وہ پی ٹی آئی کے کیسز کیسے سن سکتے ہیں؟
اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے 6 ججز، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ کے مشورے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
ان ججوں کو 5 سال کے بعد پتہ چلا کہ ایجنسیاں دباؤ ڈالتی ہیں۔ 5 سال کے بعد یہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی ایکشن لیں؟
یہ خط عمران خان کی عدالتی سہولت کاری کی کڑی قرار دی جارہی ہے۔
پی ٹی آئی راہنما شیر افضل مروت نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر کوئی ان کے کام میں مداخلت کر رہا تھا تو انہوں نے ان کو توہین عدالت کے نوٹسز کیوں جاری نہیں کیے؟ [2]