"چھ ججوں کا خط" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
(←دیگر) |
||
سطر 15: | سطر 15: | ||
اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔ | اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔ | ||
چیف جسٹس نے 6 ججز، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ کے مشورے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ | |||
=== حوالہ جات === | === حوالہ جات === |
نسخہ بمطابق 12:26، 28 مارچ 2024ء
خط میں لگائے گئے الزامات
جسٹس طاہر جہانگیری نے دعوی کیا کہ میرے بیڈروم میں کیمرہ لگا تھا۔
خط کے سیاسی پہلو
ججوں نے پیٹیشن دائر نہیں کی بلکہ کھلا خط لکھا جو چیف جسٹس تک پہنچنے سے پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا نے وائرل کر دیا۔
ججوں نے تحقیقاتی کمیشن کے بجائے ججوں کے کنونشن کا مطالبہ کیا گویا کوئی سیاسی جلسہ ہو۔ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مطالبہ لگتا ہے۔
دیگر
قانونی ماہرین کے مطابق ان ججز نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔
یہ سوال تمام لوگ اٹھا رہے ہیں کہ ججز کے پاس قانونی طاقت ہے ایسے لوگوں کو سزا سنانے کی تو کیوں نہ سنائی؟
یہ خط سیاسی دنگل بن چکا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی اس کو بھرپور سپورٹ کر رہی ہے جب کہ حکومت اس کو رد کرچکی ہے۔ ایسے میں جب ان ججز کا سارا تکیہ پی ٹی آئی پر ہے وہ پی ٹی آئی کے کیسز کیسے سن سکتے ہیں؟
اگر ان ججز نے فیصلے سیاسی دباؤ پر دئیے ہیں تو وہ ریسورس ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے 6 ججز، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ کے مشورے سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔