"ارشد شریف کا قتل" کے نسخوں کے درمیان فرق

Shahidlogs سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ کینیا پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا پولیس غلط بیانی کر رہی تھی اور ارشد شریف کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز  نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگادیا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔
23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع علی الصبح جویریا صدیقی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی۔ کینین پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا اور غلط فہمی میں مارا گیا ہے۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا کی پولیس غلط بیانی کر رہی ہے اور ارشد شریف کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز  نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگایا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔


=== کینیا پولیس کا موقف ===
=== کینیا پولیس کا موقف ===
ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور <nowiki>''</nowiki> غلط شناخت‘‘  کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔
ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور <nowiki>''</nowiki>غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔


تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔ بعد میں ملنے والے شواہد نے واضح کر دیا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا قتل تھا۔
تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔  


=== ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ ===
=== ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ ===
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے بعد مرتب کی گئی 592 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ نیز یہ کہ کینیا کی پولیس نے اس واقعے کے بعد متضاد بیانات جاری کیے۔
اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے 592 صفحات کی رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔


رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔
رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ انہوں نے روڈ بلاک دیکھی۔ وہ سمجھے روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔ وہ تیزی سے گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول  اس نے اپنے بھائی کو فون کیا تو اس نے کہا کہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے  رہیں جب تک وہ اپنے فارم ہاؤس نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس  کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘


خرم کے مطابق انہوں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو پولیس نے روڈ بلاک  کر رکھی تھی، جس پر انہوں(خرم) نے سمجھا کہ روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔  اس کے بعد  وہ  رکے بغیر وہاں سے تیزی کے ساتھ گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول  اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو ان کے بھائی نے مشورہ دیا کہ وہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے  رہیں جب تک وہ اپنے خاندانی فارم ہاؤس تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس  کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔


اس رپورٹ میں اس امر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ آیا خرم  احمد کے بیانات مشکوک معلوم ہوتے ہیں یا نہیں؟ اس میں محض اتنا کہا گیا ہے کہ اس کیس میں کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔ تاہم اس بارے میں بھی رپورٹ میں کوئی وضاحت اور تفصیلات جو ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت کی حیثیت رکھتے ہوں، موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گاڑی پر دو ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن تھی اور مجموعی طور پر نو گولیاں چلائی گئیں۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے پر فائرنگ دو ہتھیاروں سے کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن سے فائرنگ کی گئی اور ان ہتھیاروں سے مجموعی طور پر نو گولیاں چلائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے فون کو پاسورڈ لگا تھا اور پاسورڈ کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین نے کہا کہ ایسا کرنے سے فون میں موجود ڈیٹا ختم ہوسکتا ہے۔ 


اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے زیر استعمال جو فون تھا وہ برآمد ہوا تو اس کو پاسورڈ لگا ہوا تھا اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس پاسورڈ کو کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے اس فون میں موجود ڈیٹا ختم ہو جائے گا جو کہ تحقیقات میں کارآمد ہوسکتا ہے۔
اس رپورٹ میں وقار احمد اور خرم احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دونوں کے بیانات آپس میں نہیں مل رہے تھے۔


اس رپورٹ میں وقار احمد اور ان کے بھائی خرم احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ان سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان نے جو انٹرویو کیے تو ان کے بیانات ایک دوسرے سے نہیں مل رہے تھے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی گاڑی خرم احمد چلا رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔
 
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل بتایا جاتا ہے، اس نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔


وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔
وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔


فیکٹ فائنڈٖنگ رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے تاہم اس کی تصدیق ہونے کے بارے میں رپورٹ میں کچھ نہیں کہا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔
 
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد کو جب فیکٹ فائنڈنگ  کمیٹی نے طلب کیا اور ان سے اس قتل سے متعلق متعدد سوالات کیے تو وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا اس وقت گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور کمیٹی کے ارکان نے جب خرم سے ارشد شریف سے ملاقات اور وہ ان کی سفری تفصیل کے بارے میں پوچھا گیا تو خرم اس سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
 
وقوعے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ خرم جو کہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے بتایا کہ جیسے سے سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کیا تو انھیں گولیوں کی آواز سنائی دی اور خرم گولیوں کی آواز سن کر بھاگ گیا۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا اس وقت گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور کمیٹی کے ارکان نے جب خرم سے ارشد شریف سے ملاقات اور وہ ان کی سفری تفصیل کے بارے میں پوچھا گیا تو خرم اس سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔
وقوعے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ خرم جو کہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔
سطر 39: سطر 33:
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔


رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے
رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔
 
واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔


=== پاک فوج کا موقف ===
=== پاک فوج کا موقف ===
جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ کینیا پولیس کا موقف رد کیا گیا اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ ارشد شریف کی نقل و حرکت کے بارے میں تفصیلات جاری کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔  
جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاک فوج نے کینیا پولیس کا موقف رد کیا گیا اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ فوج کے پاس ارشد شریف کی نقل و حرکت کی جو معلومات تھیں وہ تفصیلات جاری کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔  


اس کے بعد درج ذیل سوالات اٹھائے گئے۔
اس کے بعد دونوں ڈی جیز نے درج ذیل سوالات اٹھائے۔


1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟
1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟
سطر 67: سطر 59:


=== ارشد شریف کے خاندان کا موقف ===
=== ارشد شریف کے خاندان کا موقف ===
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو اس سلسلے میں 17 نومبر کو ایک خط تحریر کیا۔
جویریہ صدیق نے، جو خود بھی ایک صحافی ہیں، صدر مملکت سے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطرعدالتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے میں بھی مدد طلب کی ہے۔
ارشد شریف کو تین اکتوبر کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
کینیا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے کینیا اور دبئی کا دورہ کیا۔
صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں جویریہ صدیق نے کہا کہ قتل کی ابتدائی تحقیقات میں کئی تضادات اور بے ضابطگیاں ہیں، جس کے باعث ان کے خاندان نے حکومت پاکستان کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کیا۔
‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’
انہوں نے خط میں مزید تحریر کیا کہ ان کے شوہر کے کینیا اور پاکستان میں کیے گئے پوسٹ مارٹمز کی رپورٹس کو آئے کافی وقت گزر چکا ہے اور قتل کی حقیقت جاننا اور متعلقہ معلومات حاصل کرنا مرحوم کے خاندان کا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے صدر مملکت سے ارشد شریف کے ’بعد از مرگ میڈیا ٹرائل‘ رکوانے کے سلسلے میں مدد کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’تصاویر کا یوں منظر عام پر آنا یہ سوچنے کے لیے کافی ہے کہ اس بہیمانہ قتل کے محرکات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ارشد شریف کے بیرون ملک جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے مختلف طریقوں سے انہیں ’ڈرانے کی کوشش‘ کی اور ان کے خلاف ’غداری‘ کے مقدمات درج کیے گئے۔
خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
انہوں نے مزید تحریر کیا کہ ارشد شریف اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر پاکستان سے جلدی میں جانا پڑا، ایسے میں ان کے پاس اپنے سفر کی منصوبہ بندی کا وقت نہیں تھا، اس لیے انہوں نے ایسے ملکوں کا رخ کیا جہاں آمد پر ویزا مل سکتا ہے۔
’اور اسی لیے انہوں نے متحدہ عرب امارات میں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘


=== ارشد شریف کا قاتل کون؟ ===
=== ارشد شریف کا قاتل کون؟ ===
سطر 74: سطر 93:


البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔ اس کےعلاوہ انڈین ایجنسی را بھی پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی اس قسم کی شرارتیں کرتی رہتی ہے جس سے پاکستانی ریاست کے اندر خانہ جنگی کی فضا بن سکے یا قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلے۔
البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔ اس کےعلاوہ انڈین ایجنسی را بھی پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی اس قسم کی شرارتیں کرتی رہتی ہے جس سے پاکستانی ریاست کے اندر خانہ جنگی کی فضا بن سکے یا قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلے۔
https://www.independenturdu.com/node/118751
https://www.urdunews.com/node/714346

نسخہ بمطابق 11:46، 1 اپريل 2023ء

23 اکتوبر 2022ء کو ارشد شریف کے خاندانی ذرائع سے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلی کہ کینیا نیروبی سے کچھ دور ارشد شریف کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع علی الصبح جویریا صدیقی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی۔ کینین پولیس کا ابتدائی موقف تھا کہ وہ ناکہ توڑنے پر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا اور غلط فہمی میں مارا گیا ہے۔ تاہم بعد میں آنے والے شواہد سے ظاہر ہوا کہ کینیا کی پولیس غلط بیانی کر رہی ہے اور ارشد شریف کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل کیا گیا۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی صحافیوں اور یوٹیوبرز نے قتل کا الزام فوری طور پر پاکستانی فوج پر لگایا۔ لیکن شواہد ظاہر کر رہے تھے کہ قتل میں کچھ دیگر قوتیں اور غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔

کینیا پولیس کا موقف

ارشد شریف پر حملہ اور ان کی موت کی خبر عام ہوتے ہی نیروبی پولیس نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر تے ہوئے  کہا تھا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے وہ ایک بچے کے اغوا کے کیس میں ملوث ہونے کے سبب مشکوک تھی اور ''غلط شناخت‘‘ کی وجہ سے کینیا کے دارالحکومت کے باہر ایک پولیس چوکی سے ان پر فائرنگ کی گئی اور اس دوران وہ گولیاں لگنے سے جانبحق ہو گئے۔

تاہم کینیا پولیس کے اس دعوے کو پاکستان کی حکومت، فوج اور پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔

ارشد شریف قتل کی تحقیقاتی رپورٹ

اس قتل کی ابتدائی تحقیقات کے لیے دو پاکستانی تفتیش کاروں نے کینیا کا سفر کیا۔ انہوں نے پولیس اور ارشد شریف کے میزبان بھائیوں خُرم اور وقار احمد  سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے 592 صفحات کی رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ارشد شریف کو ایک منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق خُرم احمد نے بتایا کہ رات کو باہر کھانا کھانے کے بعد وہ ارشد شریف کےہمراہ گاڑی میں گھر جا رہے تھے کہ انہوں نے روڈ بلاک دیکھی۔ وہ سمجھے روڈ ڈاکوؤں کی طرف سے بلاک کی گئی ہے۔ وہ تیزی سے گاڑی بھگانے لگے تو انہون نے گولیوں کی آوازیں سنی۔ خُرم احمد کے بقول  اس نے اپنے بھائی کو فون کیا تو اس نے کہا کہ رُکے بغیر گاڑی چلاتے  رہیں جب تک وہ اپنے فارم ہاؤس نہیں پہنچ جاتے۔ یہ فارم ہاؤس  کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر ان بھائیوں نے 'ارشد شریف کو مردہ پایا۔‘

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کینیا کی پولیس غالباً مالی یا دیگر معاوضے کے عوض مبینہ طور پر اس قتل کے 'آلہ کار‘  کے طور پراستعمال ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق گاڑی پر دو ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک سیون ایم ایم اور دوسری ایک اور گن تھی اور مجموعی طور پر نو گولیاں چلائی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے فون کو پاسورڈ لگا تھا اور پاسورڈ کریک کرنے کی کوشش کی گئی تو فارنزک ماہرین نے کہا کہ ایسا کرنے سے فون میں موجود ڈیٹا ختم ہوسکتا ہے۔

اس رپورٹ میں وقار احمد اور خرم احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دونوں کے بیانات آپس میں نہیں مل رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق دوبئی میں قیام کے بعد ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے جہاں پر وقار احمد کے ایک رشتہ دار جس کا نام جمیل نے ارشد شریف کا استقبال کیا اور ارشد شریف وقار احمد کے اپارٹمنٹ میں دو ماہ اور تین دن تک قیام پذیر رہے۔

وقار احمد نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ کینیا میں ویزے کے لیے انھوں نے ارشد شریف کو سپانسر لیٹر دیا تھا، تاہم انھوں نے اس لیٹر کی کاپی کمیٹی کے ارکان کو فراہم نہیں کی۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔ وقار احمد اور خرم احمد  کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ جبکہ  کچھ ایسی معلومات بھی ملی ہیں کہ وقار کا تعلق کینیا کی انٹیلی جنس سمیت کئی بین الاقوامی ایجنیسوں سے ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جس روز ارشد شریف کو قتل کیا گیا اس وقت گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں اور کمیٹی کے ارکان نے جب خرم سے ارشد شریف سے ملاقات اور وہ ان کی سفری تفصیل کے بارے میں پوچھا گیا تو خرم اس سے متعلق کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔

وقوعے سے متعلق بتایا گیا ہے کہ خرم جو کہ ارشد شریف کو لے کر گاڑی میں جارہے تھے کہ راستے میں انھیں سڑک پر پتھر نظر آئےجس پر خرم نے ارشد  کو بتایا کہ ’یہ ڈاکو ہوں گے‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہےجس کے بعد خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا اور فارم ہاؤس وقوعہ سے  18کلو میٹر دور تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیااور اندر بھاگ گیا اور خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے ارشد کے سر میں گولی لگی تھی اور جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد بری طرح زخمی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد نے پہلے فارم ہاؤس کی  سی سی ٹی وی فوٹیج دینے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن پھر  انھوں نے فوٹیج دینے سے معذرت کرلی۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان دونوں افراد کے علاوہ ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے اور وہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں ارشد شریف کے قتل کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں وقار احمد اور خرم احمد نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔

پاک فوج کا موقف

جس دن ارشد شریف کا جنازہ تھا اس دن ڈی جی آی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ارشد شریف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں پاک فوج نے کینیا پولیس کا موقف رد کیا گیا اس واقعے کو قتل قرار دیا گیا۔ فوج کے پاس ارشد شریف کی نقل و حرکت کی جو معلومات تھیں وہ تفصیلات جاری کی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا دبئی حکومت پر کسی نے سرکاری سطح پر دباؤ نہیں ڈالا کہ ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا ویزا ایکسپائر ہوا تو وہ دبئی سے نکلا۔

اس کے بعد دونوں ڈی جیز نے درج ذیل سوالات اٹھائے۔

1۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا بندوبست کون کر رہا تھا؟

2۔ کس نے ان کو یقین دلایا کہ کینیا جیسا ملک اس کے لیے محفوظ ہے؟ جب کہ دنیا میں 34 ممالک ایسے ہیں جہاں وہ بغیر ویزے کے جاسکتے تھے۔

3۔ کینیا میں ارشد شریف کی میزبانی کون کر رہا تھا؟

4۔ پاکستان میں اس کے رابطے کس کس سے تھے؟

5۔ وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں اور ان سے ارشد شریف کے رابطے کس نے استوار کرائے؟

6۔ کچھ لوگوں نے لندن میں ارشد شریف سے ملاقاتے کے دعوے کیے تھے۔ وہ لوگ کون ہیں اور انہوں نے یہ دعوے کیوں کیے؟

7۔ ارشد شریف کی موت کینیا کے دور افتادہ علاقے میں ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے بھی ان کو نہیں پہچانا۔  پھر اس کی وفات کی سب سے پہلی اطلاع وہاں سے یہاں کس نے دی اور کس کو دی؟

8۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ ارشد شریف کا قتل 'غلط شناخت' کا ہی واقعہ ہے یا یہ ٹارگٹ کلنگ تھی؟

9. کچھ لوگوں نے اس سفاکانہ قتل کو فورا فوج کی جانب موڑ دیا۔ دیکھنا چاہئے کہ اس قتل سے کس کو فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان؟

ارشد شریف کے خاندان کا موقف

ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے صدر علویٰ کو اس سلسلے میں 17 نومبر کو ایک خط تحریر کیا۔

جویریہ صدیق نے، جو خود بھی ایک صحافی ہیں، صدر مملکت سے قتل کی شفاف انکوائری کی خاطرعدالتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے میں بھی مدد طلب کی ہے۔

ارشد شریف کو تین اکتوبر کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

کینیا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس نے کینیا اور دبئی کا دورہ کیا۔

صدر مملکت کو لکھے گئے خط میں جویریہ صدیق نے کہا کہ قتل کی ابتدائی تحقیقات میں کئی تضادات اور بے ضابطگیاں ہیں، جس کے باعث ان کے خاندان نے حکومت پاکستان کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کیا۔

‘کیونکہ یہ وہی حکومت ہے، جس نے ارشد شریف کے خلاف کم از کم 16 بے بنیاد ایف آئی آرز درج کروائیں۔’

انہوں نے خط میں مزید تحریر کیا کہ ان کے شوہر کے کینیا اور پاکستان میں کیے گئے پوسٹ مارٹمز کی رپورٹس کو آئے کافی وقت گزر چکا ہے اور قتل کی حقیقت جاننا اور متعلقہ معلومات حاصل کرنا مرحوم کے خاندان کا بنیادی حق ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض حلقوں نے ان کے شوہر کی میت کی کچھ تصاویر غیر قانونی طور پر میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو مہیا کیں، جنہیں کچھ لوگ اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے صدر مملکت سے ارشد شریف کے ’بعد از مرگ میڈیا ٹرائل‘ رکوانے کے سلسلے میں مدد کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’تصاویر کا یوں منظر عام پر آنا یہ سوچنے کے لیے کافی ہے کہ اس بہیمانہ قتل کے محرکات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ارشد شریف کے بیرون ملک جانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے مختلف طریقوں سے انہیں ’ڈرانے کی کوشش‘ کی اور ان کے خلاف ’غداری‘ کے مقدمات درج کیے گئے۔

خط میں مزید لکھا گیا کہ ارشد شریف مختلف خیر خواہوں کے کہنے پر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔

انہوں نے مزید تحریر کیا کہ ارشد شریف اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر پاکستان سے جلدی میں جانا پڑا، ایسے میں ان کے پاس اپنے سفر کی منصوبہ بندی کا وقت نہیں تھا، اس لیے انہوں نے ایسے ملکوں کا رخ کیا جہاں آمد پر ویزا مل سکتا ہے۔

’اور اسی لیے انہوں نے متحدہ عرب امارات میں دوسرے ویزے کے انکار پر کینیا کا سفر کیا، جہاں انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔‘

ارشد شریف کا قاتل کون؟

ارشد شریف کے قتل کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا اور فائدہ بھی۔ نقصان یہ ہوا کہ ایک بڑے حامی اینکر سے محروم ہوگئی۔ جب کہ فائدہ یہ ہوا کہ کارکنوں میں مزید غم و غصہ بھر گیا جو شائد لانگ مارچ کے لیے ایندھن کا کام کرے۔

پاک فوج کو سراسر نقصان ہوا ہے جو پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی ان کے خلاف ایک اور طوفان اٹھا لیا جائیگا۔ نہ کسی تحقیقات کی ضرورت اور نہ ثبوت کی۔

البتہ پی ڈی ایم کو اس قتل کا سراسر فائدہ ہوا ہے۔ انکی نہ صرف ایک مخالف اینکر سے جان چھوٹی بلکہ اب وہ پی ٹی آئی کے حامیوں میں فوج کے خلاف اٹھنے والے طوفان کا تماشہ بھی دیکھیں گے۔ اس کےعلاوہ انڈین ایجنسی را بھی پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ بھی اس قسم کی شرارتیں کرتی رہتی ہے جس سے پاکستانی ریاست کے اندر خانہ جنگی کی فضا بن سکے یا قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت پھیلے۔


https://www.independenturdu.com/node/118751

https://www.urdunews.com/node/714346