پنجاب کالج میں لڑکی کا ریپ

Shahidlogs سے

لڑکی کا کسی کو نہیں پتہ

پی ٹی آئی نے ایک ایسی لڑکی پر الزام لگایا جو اس کالج میں پڑھتی ہی نہیں تھی۔ جس گارڈ پر الزام لگایا گیا وہ اس دن چھٹی پر تھا۔ [1]

پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر مہر نقوی نے سوشل میڈیا پر وائرل ایک بچی کی تصویر شئیر کر کے کہا کہ کنزا سلیم ہم تمہارے لیے کچھ نہ کرسکے۔ [2]

جس لڑکی کو سوشل میڈیا پر واقعے کا چشم دید گواہ بنا کر پیش کیا جارہا تھا اس نے مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرس میں اعتراف کیا کہ اُن کا تعلق اس کالج کیمپس سے ہے ہی نہیں جہاں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا تھا اور یہ کہ انھوں نے یہ پوری کہانی دوسرے کیمپس کے بچوں سے سُنی جو انھوں نے میڈیا پر آ کر کہہ دی جو وائرل ہوئی۔ [3]

ابتدا میں خبر پھیلائی گئی کہ ریپ کا یہ مبینہ واقعہ 10 اکتوبر کو پیش آیا تھا اور جس بچی کا نام لیا جا رہا تھا درحقیقت وہ دو اکتوبر سے ہسپتال میں داخل ہے کیونکہ وہ گِری تھی اور اسے چوٹ لگی تھی، وہ بچی آئی سی یو میں داخل تھی جب اسے ریپ کا وکٹم بنا دیا گیا۔ [3]

کہا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج ختم کر دی گئی تھی۔ وزیر تعلیم نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے متعلق جو بات کی وہ وہی تھی جو انھوں نے طلبا سے سُنی تھی مگر اس میں صداقت نہیں تھی۔ [3]

پی ٹی آئی کے حامی یوٹیوبر نے ویڈیو بنا کر پھیلائی کہ وہ بچی اسپتال میں فوت ہوگئی ہے۔ بعد میں اس نے دوسری ویڈی جاری کی جس میں تردید کی کہ میں نے تو طلباء سے سنا تھا۔ [3]

جس بچی کو سب سے زیادہ وائرل کیا گیا اس کی والدہ نے کہا کہ میں غریب ہوں، میری پانچ بچیاں ہیں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے مگر جنھوں نے میری بیٹی کے حوالے سے یہ جھوٹی کہانی گھڑی اُن کو پکڑیں اور سزا دیں۔ [3]

بیسمنٹ میں کوئی لاک ہے ہی نہیں جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسکو لاک کیا گیا تھا۔ [3]

شہربانو نقوی کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں موجود لڑکی کے والد اور چچا نے پولیس کے رابطہ کرنے پر یہ وضاحت کی کہ ان کی بچی کا نام غلط طور پر اس معاملے میں لایا جا رہا ہے۔ نیز جن باقی لڑکیوں کے نام لیے گئے ان سب کے گھروں میں پولیس گئی لیکن ان سب نے اس واقعے کی تردید کی۔ [3]

پولیس کو ایمبولنس کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملا جسکا دعوی کیا گیا تھا۔ [3]

پنجاب کالج کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے کالج کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو دیکھی ہے لیکن انھیں اس واقعے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔ سویٹر پہنی طالبات اور اساتذہ کی ویڈیوز وائرل کر کے کہا گیا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ کیا لاہور کا موسم ایسا ہے کہ طالبات نے سویٹرز پہنے ہوں؟

طلباء کے دعوے

کچھ طلباء نے دعوے کیے کہ ایک لڑکی نے خود اس لڑکی کی چیخیں سنی تھیں۔

کچھ طلباء نے کہا لڑکی کو ایمبولینس لے کر گئی تھی۔

طلباء کا دعوی تھا کہ انہیں اس سب کا پتہ سوشل میڈیا پر چلا۔

ایک اور طالبہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’ہم احتجاج اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے کالج میں ریپ ہوا ہے بچی کا۔ کالج والے کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا مگر کچھ کالج کی لڑکیاں ہیں جنھوں نے خود ایمبولینس کو کالج میں اور ایمبولینس میں اس لڑکی کو دیکھا جسے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔‘

طلبہ میں سے ایک طالبِ علم محمد عرفان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر کچھ نہیں ہوا تو پھر طلبہ چار روز سے کیوں احتجاج کر رہے ہیں اور کالج سے سی سی ٹی وی کیمرے کیوں اُتارے گئے ہیں۔

پرتشدد مظاہرے

راولپنڈی میں مظاہرے کے دوران ایک پشتون لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی جو مریم نواز پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ہم انصاف لے کر رہیں گے۔ سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ یہ لڑکا پی ٹی آئی کا ہے۔ [4]

ایک ویڈیو میں طلبا پنجاب کالج راولپنڈی پر حملے اور توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ [5] [6]

ایک وڈیو میں طلباء آٹومیٹک سیڑھیوں کے شیشے توڑ رہے ہیں۔ [7]

سیاسی جماعتوں کی شرکت

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کا پروپیگنڈا

زرتاج گل کی بہن شبنم گل کے حوالے سے کہا گیا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں۔ وہ اسی کالج میں پروفیسر ہیں اور انہوں نے بھی اس پر پروپیگنڈا کیا۔ مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ بچوں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ انکو کہا گیا تھا کہ احتجاج کریں۔ [8] انکی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ لڑکیوں سے پوچھ رہی ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ [9] ان پر الزام لگا کہ ابتداء میں جب لڑکیاں احتجاج کرنے پہنچیں تو اس نے معاملہ ہینڈل نہیں کیا اور طلبہ کو مزید اشتعال دلایا۔

سلمان درانی نے کہا کہ مریم نواز کا انجام شیخ حسینہ والا ہوگا۔ [10]

عمران ریاض کے ایک پیروڈی پی ٹی آئی اکاونٹ نے 8 اکتوبر کو گجرانوالہ تحصیل علی پور چٹھہ کے تھانے میں پیش آئے واقعے کو پنجاب کالج کے احتجاجی طلبہ سے منسوب کرتے ہوئے اس بچے کی موت کو پنجاب پولیس اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز سے جوڑا۔ جو خوب وائرل ہوا۔ سارا میر نے بھی یہی کیا۔ [11] [12]

عمران ریاض نے اسپتال میں تڑپتی بچی اور پولیس کے ساتھ مظاہروں میں زخمی ہونے والے طلباء کی تصویر مریم نواز کے ساتھ لگا کر ٹویٹ کی کہ 'دودھ پلانے والی سے خون پینے والی تک'۔ [13]

عمران ریاض نے بعد میں اس سوشل میڈیا پر لوگوں کو یہ کہہ کر اکسانے لگا کہ ریپ نہیں بھی ہوا تو جو طلبہ پر تشدد ہوا ہے اس پر احتجاج جاری رہنا چاہئے۔ اس پر تنقید ہوئی کہ چار بچیوں کی زندگی برباد کر کے ایک اور بےگناہ سیکیورٹی گارڈ کو قتل کروا کر یہ کہنا کہ چلو خیر ہے زیادتی ہے۔

پی ٹی آئی کی ثمینہ پاشا اور ملیحہ ھاشمی نے بھی اس واقعے پر خوب پروپیگنڈا کیا۔ [14]

پی ٹی آئی کے حامی شاکر اعوان نامی صحافی نے بھی اس پر پروپیگنڈا کیا۔ [15]

پی ٹی آئی کے ایک حامی صحافی نے ویڈیو بنائی کہ میرے پاس ثبوت ہیں کہ واقعہ ہوا ہے اور لڑکی کا ریپ ہوا ہے۔ [16]

پی ٹی آئی کے ایکٹیوسٹ عمیر بن حماد نے اپنے فیک اکاؤنٹ سے امریکہ میں بیٹھ کر طلباء سے اپیل کی کہ ڈی چوک کی جانب مارچ کریں۔ [17]

نعیم بخاری نے بھی ٹویٹ کی کہ زیادتی کا شکار بچی مر چکی ہے۔

نوشی گیلانی نامی پی ٹی آئی ک شاعرہ نے توڑ پھوڑ کرنے والے طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ [18]

تردید کے بعد بھی ایک لڑکے نے ویڈیو بیان وائرل کیا کہ یہی ہے وہ لڑکی جس کے ساتھ زنا بلجبر ہوا۔ [19]

دیگر

پی ٹی آئی کے تمام بڑے اکاؤنٹس نے پنجاب گروپ آف کالجز کے چیف ایگزیکٹیو سہیل افضل پر ریپ کا الزام لگایا اور اس کو ن لیگ سے جوڑا۔ [20]

ان مظاہروں میں ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی والوں نے بھی حصہ لیا۔ [21]

دیگر

پولیس رپورٹ کے مطابق اس واقعے کی کہیں بھی کوئی شکایت درج نہیں کی گئی۔ نہ کسی اسپتال میں ایسا کوئی مریض رپورٹ ہوا ہے۔ سیکیورٹی گارڈ چھٹی پر تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی کچھ نظر نہیں آیا۔

پولیس نے احتجاج کرنے والوں لڑکوں سے پوچھا کہ وہ لڑکی کون ہے جسکا ریپ ہوا ہے؟ تو کسی طالب علم کو پتہ نہیں تھا کہ لڑکی کون ہے؟ مبینہ طور پر ریپ کرنے والا تو ہمارے حراست میں ہے۔

پولیس والے پرچہ درج کرنے کو تیار ہیں لیکن وہ سوال کر رہے ہیں کہ اس میں مدعی کس کو لکھیں؟

جس لڑکی کی ویڈیو پی ٹی آئی نے وائرل کی تھی اس کے والد اور چچا کا بیان آیا کہ ہماری بچی گھر میں گر گئی تھی جس کے بعد اس کو ہم دو بار اسپتال لے کر گئے۔ پہلے سروسز اسپتال اور لیکن اس کی ٹانگیں کام نہیں کر رہی تھیں جس پر خدشہ ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگی جس پر دوسرے بار اتفاق اسپتال لے کر گئے۔ کلاس سے کسی لڑکی نے ان کے گھر فون کیا تو اس کو بتایا کہ وہ آئی سی یو میں ہے۔

اس کے والدین نے بچی کی رپورٹ لوگوں کو دیکھائی حتی کہ صحافیوں کو بھی دکھائی گئی کیونکہ ہماری عزت خاک میں مل گئی۔ لڑکی بھی رو رہی ہے کہ مجھ پر کیا الزام لگ گیا۔ لڑکی کا والد کہتا ہے کہ میری بیوی دل کی مریضہ ہے خدا کے لیے اس دباؤ سے وہ مر سکتی ہے۔

کالج پرنسپل نے بیان دیا کہ جب ہمارے داخلوں کا وقت ہوتا ہے تو اس قسم کی افواہیں اکثر اڑائی جاتی ہیں۔

وزیرتعلیم نے طلبا کا بیانیہ فوراً قبول کر کے کیمپس بند کر دیا اور انتظامیہ کے کچھ بندوں کو معطل بھی کر دیا۔

پی ٹی آئی ایکٹیوسٹس بضد ہیں کہ انکو پریشرائز کیا جا رہا ہے کہ ایسا بیان دیں۔

پی ٹی آئی پر الزام لگا کہ اس احتجاج کو وہ انڈیا یا بنگلہ دیش کی طرز پر احتجاج کی شکل دینا چاہتے تھے۔

راولپنڈی پولیس نے بیان دیا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے 150 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ [22]

عین احتجاج کے دوران ایک صوابی سکول میں چوکیدار نے 12 سال کی بچی کا ریپ کر دیا جس کی ایف آئی آر بھی کاٹی گئی۔ اس پر پی ٹی آئی اکاؤنٹس خاموش رہے۔ [23]

ایک ویڈیو میں احتجاج کرنے والی بچیاں قہقہے لگا رہی ہیں۔ [24]

لاہور پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پولیس نے کالج کی گذشتہ ایک ماہ کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے جو اس وقت تحقیقات کا حصہ ہے۔

وزیراعلٰی مریم نواز نے اس معاملے پر ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی چیف سیکریٹری پنجاب کر رہے تھے۔

حوالہ جات