پنجاب کالج میں لڑکی کا ریپ

Shahidlogs سے

پی ٹی آئی کے تمام بڑے اکاؤنٹس نے پنجاب گروپ آف کالجز کے چیف ایگزیکٹیو سہیل افضل پر ریپ کا الزام لگایا اور اس کو ن لیگ سے جوڑا۔ [1]

پولیس رپورٹ کے مطابق اس واقعے کی کہیں بھی کوئی شکایت درج نہیں کی گئی۔ نہ کسی اسپتال میں ایسا کوئی مریض رپورٹ ہوا ہے۔ سیکیورٹی گارڈ چھٹی پر تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی کچھ نظر نہیں آیا۔

پولیس نے احتجاج کرنے والوں لڑکوں سے پوچھا کہ وہ لڑکی کون ہے جسکا ریپ ہوا ہے؟ تو کسی طالب علم کو پتہ نہیں تھا کہ لڑکی کون ہے؟ مبینہ طور پر ریپ کرنے والا تو ہمارے حراست میں ہے۔

پولیس والے پرچہ درج کرنے کو تیار ہیں لیکن وہ سوال کر رہے ہیں کہ اس میں مدعی کس کو لکھیں؟

جس لڑکی کی ویڈیو پی ٹی آئی نے وائرل کی تھی اس کے والد اور چچا کا بیان آیا کہ ہماری بچی گھر میں گر گئی تھی جس کے بعد اس کو ہم دو بار اسپتال لے کر گئے۔ پہلے سروسز اسپتال اور لیکن اس کی ٹانگیں کام نہیں کر رہی تھیں جس پر خدشہ ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی کو چوٹ لگی جس پر دوسرے بار اتفاق اسپتال لے کر گئے۔ کلاس سے کسی لڑکی نے ان کے گھر فون کیا تو اس کو بتایا کہ وہ آئی سی یو میں ہے۔

اس کے والدین نے بچی کی رپورٹ لوگوں کو دیکھائی حتی کہ صحافیوں کو بھی دکھائی گئی کیونکہ ہماری عزت خاک میں مل گئی۔ لڑکی بھی رو رہی ہے کہ مجھ پر کیا الزام لگ گیا۔ لڑکی کا والد کہتا ہے کہ میری بیوی دل کی مریضہ ہے خدا کے لیے اس دباؤ سے وہ مر سکتی ہے۔

کالج پرنسپل نے بیان دیا کہ جب ہمارے داخلوں کا وقت ہوتا ہے تو اس قسم کی افواہیں اکثر اڑائی جاتی ہیں۔

وزیرتعلیم نے طلبا کا بیانیہ فوراً قبول کر کے کیمپس بند کر دیا اور انتظامیہ کے کچھ بندوں کو معطل بھی کر دیا۔

ان مظاہروں میں ٹی ایل پی اور جماعت اسلامی والوں نے بھی حصہ لیا۔

پی ٹی آئی ایکٹیوسٹس بضد ہیں کہ انکو پریشرائز کیا جا رہا ہے کہ ایسا بیان دیں۔

پی ٹی آئی پر الزام لگا کہ اس احتجاج کو وہ انڈیا یا بنگلہ دیش کی طرز پر احتجاج کی شکل دینا چاہتے تھے۔

حوالہ جات