جسٹس ثاقب نثار پر تنقید

Shahidlogs سے
نظرثانی بتاریخ 02:41، 1 نومبر 2023ء از Shahidkhan (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («جنوری 2019ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے گرینڈ حیات ہوٹل کی لیز بحال کر دی جسے سی ڈی اے نے قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کر دیا تھا۔ یہ ہوٹل میسرز بی این پی کو ہوٹل کی تعمیر کیلئے دیا گیا تھا لیکن اس کی بجائے کمپنی نے 40 منزلہ لگژری فلیٹس تعمیر کر...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

جنوری 2019ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے گرینڈ حیات ہوٹل کی لیز بحال کر دی جسے سی ڈی اے نے قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کر دیا تھا۔ یہ ہوٹل میسرز بی این پی کو ہوٹل کی تعمیر کیلئے دیا گیا تھا لیکن اس کی بجائے کمپنی نے 40 منزلہ لگژری فلیٹس تعمیر کر دیے۔

کمپنی پر 18 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا جس کے لیے ثاقب نثار نے کہا کہ جرمانے کی رقم کے متعلق مجھے خواب آیا تھا۔

سی ڈی اے کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ سی ڈی اے اب تک سو رہا تھا۔ یہ بھی کہا کہ ایسے تو آدھا اسلام آباد غلط تعمیر کیا گیا ہے۔

سی ڈی اے نے اُس وقت بینچ میں جسٹس احسن کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا کہ ماضی میں وہ میسرز بی این پی کے وکیل رہ چکے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں جسٹس احسن کی میسرز بی این پی کے ساتھ وابستگی کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ [1]