"لال مسجد آپریشن" کے نسخوں کے درمیان فرق
(←دیگر) |
|||
(ایک ہی صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا) | |||
سطر 211: | سطر 211: | ||
آج بھی لال مسجد والے ایچ 8 میں زمین کے لیے ہی آئے دن ڈرامے کرتے رہتے ہیں اور کچھ دن پہلے پھر فرما رہے تھے کہ اگر ہمیں ایچ 8 میں 20 کنال کا پلاٹ نہیں دیا گیا تو ہم دوبارہ 'نفاذ شریعت' کی مہم چلا دینگے۔ | آج بھی لال مسجد والے ایچ 8 میں زمین کے لیے ہی آئے دن ڈرامے کرتے رہتے ہیں اور کچھ دن پہلے پھر فرما رہے تھے کہ اگر ہمیں ایچ 8 میں 20 کنال کا پلاٹ نہیں دیا گیا تو ہم دوبارہ 'نفاذ شریعت' کی مہم چلا دینگے۔ | ||
=== دیگر === | |||
جامعہ فریدیہ لال مسجد کے ایک بزرگ استاد کا مولانا عبد العزیز کے نام ایک کھلا خط سوشل میڈیا کی زینت بنا جس میں عبدالعزیز پر کئی الزامات لگائے گئے تھے۔ اس خط میں اس نے جامعہ سے استعفی دیا تھا۔ <ref>[https://twitter.com/ammarkhanyasir/status/1698235113216090129 عبدالعزیز کے نام خط]</ref> | |||
=== حوالہ جات === |
حالیہ نسخہ بمطابق 10:30، 1 نومبر 2023ء
اسلام آباد میں آپ کسی سرکاری زمین پر بغیر اجازت مسجد بنانی شروع کریں۔ کوئی اعتراض کرے تو اسے کافر قرار دیں۔ مسجد کے ساتھ اپ کی رہائش گاہ اور مدرسہ (مستقل کمائی کا ذریعہ) خودبخود بن جاتا ہے۔ سی ڈی اے کی رپورٹ کے مطابق صرف اسلام اباد میں 194 مساجد (ملحقہ مدارس و رہائشگاہیں) اسی طریقے سے قبضہ کر کے بنائی گئی ہیں۔ جن میں 165 سی ڈی اے سیکٹرز میں ہیں۔ جہاں زمین کی مالیت 30 تا 50 لاکھ روپے مرلہ ہے۔ لال مسجد میں جو کچھ ہوا وہ بھی اسی قسم کے قبضے کا نتیجہ تھا جس کو مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا۔
تنازعے کا پس منظر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
مولوی عبدالعزیز کے والد مفتی عبداللہ لال مسجد کے سرکاری مولوی تھے۔ ان کے لیے سی ڈی اے نے محکمہ اوقاف کے نام لال مسجد سے ملحقہ 206 مربع گز زمین الاٹ کی تھی۔ لیکن موصوف زمین خالی دیکھ کر اپنا قبضہ بڑھاتے رہے اور آہستہ آہستہ 9533 مربع گز زمین پر قابض ہوگئے۔ فائر برگیڈ کی زمین بھی دبا لی۔ اپنے اس قبضے پر ایک عالی شان رہائش گاہ اور مدرسہ بنا کر اس کو 'جامعہ حفصہ' کا نام دے دیا۔
1998ء میں مفتی عبداللہ کی ہلاکت کے بعد ان کے ہونہار بیٹوں عبدالعزیز اور عبدالرشید نے قبضے میں مزید اضافہ فرمایا اور خواتین کی لائبریری کے لیے مختص زمین بھی دبا لی۔ انہی دنوں دونوں بھائیوں نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے اپنے روابط اعتراف بھی کیا۔
اس تازہ قبضے پر بلآخر سی ڈی اے حرکت میں آئی اور مارچ 2001ء میں خواتین لائبریری کے لیے مختص زمین واگزار کرانے سی ڈی اے اہلکار پہنچے۔ سی ڈی اے اہلکاروں کو غازی عبدالرشید نے یقین دلایا کہ آپ چلے جائیں ہم خود ہی ایک ہفتے میں تجاوزات گرا دینگے۔
سی ڈی اے اہلکار اس جھانسے میں آکر واپس چلے گئے۔ وعدہ پورا نہ ہوا اور سی ڈی اے حکام دوبارہ پہنچے تو اب لال مسجد والے تیار تھے۔ 100 کے قریب ڈنڈا بردار طالبات نے سی ڈی اے اہلکاروں پر دھاوا بول دیا۔ اہلکار مار کھا کر بھاگے اور اس حملے کی ایف آئی آر لال مسجد اتنظامیہ کے خلاف قریبی تھانے میں درج کرائی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد نائن الیون ہوا اور لال مسجد میں پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف تقاریر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 2003ء میں بیت اللہ محسود کا نمائندہ عیسی غازی برادران سے ملا اور دونوں نے بیت اللہ محسود کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ان دنوں پاکستان کے خلاف طالبان کو منظم کر رہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد وزیرستان سے دہشتگرد لال مسجد آنے لگے اور لال مسجد کے طلباء کو وزیرستان بھیجا جانے لگا۔
2004 میں وزیرستان میں پاک فوج کی دہشتگردوں کے ساتھ پہلی جنگ ہوئی تو لال مسجد نے فوراً فتوی جاری کیا کہ پاک فوج مرتد ہے، مارے گئے فوجی شہید نہیں مردار ہیں اور ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔
اسی سال غازی عبدالرشید کی گاڑی دہشتگردوں کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوئی۔ لیکن انتظامیہ بدستور ان کے خلاف کاروائی سے ہچکچاتی رہی۔
2005ء میں آخر کار دہشتگردوں سے روابط پر پہلی پر اسلام آباد پولیس نے لال مسجد پر چھاپہ مارا۔ لیکن وہاں موجود ڈنڈا بردار طالبات سینکڑوں کی تعداد میں باہر آئیں اور پولیس پر حملہ کر دیا۔ پولیس طالبات کو ہاتھ نہ لگاسکی اور بےبس ہوگئی۔ اس واقعے نے لال مسجد والوں کو سمجھا دیا کہ مدرسہ طلبا خاص طور پر خواتین کو سیکیورٹی اہلکار ہاتھ نہیں لگاتے۔ جس کا انہوں نے بعد میں خوب فائدہ اٹھایا۔
2006ء تک لال مسجد کے بہت سے طلباء وزیرستان میں تربیت لے چکے تھے اور لال مسجد وزیرستانی دہشتگردوں کا بیس کیمپ بن چکی تھی۔ نہ صرف وزیرستانی بلکہ ازبک اور مصری بھی لال مسجد پہنچنے لگے۔ لال مسجد کی کمانڈ اور کنٹرول وزیرستان منتقل ہوچکی تھی۔
حکومتی نمائندوں نے لال مسجد والوں سے رابطے شروع کیے اور دہشتگردوں سے روابط ختم کرنے کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔
اسی سال سی ڈی اے نے اسلام آباد میں قبضہ کر کے بنائی گئی 194 میں سے 70 مساجد و مدارس کی زمین واگزار کرانے کا نوٹس جاری کیا۔ ساتھ ہی 'قابض ملاؤوں' کو یقین دہانی کرائی گئی کہ متبادل جگہیں فراہم کی جائنگی۔ ان میں جامعہ حفصہ بھی شامل تھی۔
لال مسجد والوں کا ردعمل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
جنوری 2007ء میں سی ڈی اے نے ان 5 مساجد و مدارس کو مسمار کر دیا جو خالی کر لی گئی تھیں اور گرین بیلٹ پر بنائی گئی تھیں۔
اس کے جواب میں جامعہ حفصہ کی لٹھ بردار طالبات نے خواتین لائبریری کے ساتھ ملحقہ بچوں کی لائبریری پر بھی قبضہ کر لیا۔ ساتھ ہی سو کے قریب طلباء اور طالبات ہاتھوں میں ڈنڈے لیے قریبی آبپارہ مارکیٹ پہنچیں اور وہاں سی ڈیز کی دکانوں میں گھس کر سی ڈیز نکال کر ان کو آگ لگا دی اور دکانداروں کو وارننگ دی۔ گاڑیاں روک کر ان میں لگے ٹیپ ریکارڈر ڈنڈوں سے توڑے۔ لال مسجد سے پاکستان میں بے حیائی کے خاتمے اور شریعت کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ سی ڈی اے نوٹس کے بعد ہوا۔
ان کو روکنے پولیس بھیجی گئی۔ تو لال مسجد کی بدمعاش طالبات نئی قبضہ شدہ جگہ کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں۔ سب نے سروں پر جہادی پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور 'شریعت یا شہادت' کے نعرے مارنے لگیں۔ اسی دوران جامعہ فریدیہ کے سینکڑوں طلبا بھی ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر مارکیٹوں کے چکر لگانے لگے۔
جامعہ فریدیہ فیصل مسجد کے قریب ایک اور مدرسہ ہے۔ یہ بھی غازی بردارن کی ملکیت ہے اور یہ بھی الاٹ کی گئی جگہ سے 10 گنا بڑی جگہ پر قبضہ کر کے بنایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جی سیون میں انہی بھائیوں کا ایک تیسرا مدرسہ ہے۔ اس کا نام بھی جامعہ حفصہ ہے اور اس کا بڑا حصہ بھی قبضہ کر کے بنایا گیا ہے۔ کم از کم 20 تا 25 کنال پر محیط اس زمین کی مالیت 3 تا 4 ارب روپے ہے۔
حکومت نے مزاکراتی وفد بھیجنے شروع کر دئیے۔ جن کو کوئی گھاس نہیں ڈالی گئی۔ لال مسجد میں اعلانیہ بچیوں کو لٹھ بربادی کی تربیت دی جانے لگی اور اس کی تشہیر بھی کی گئی۔ ان طالبات نے ہلہ بول کر دو پولیس والوں کو اغواء کر لیا جن کو اس شرط پر چھوڑا گیا کہ حکومت لال مسجد والوں کا تازہ ترین قبضہ تسلیم کرے گی اور حکومت کی مزاکراتی ٹیم نے لال مسجد والوں کی شرائط مان لیں۔
اس پر لال مسجد والوں کے حوصلے آسمان پر پہنچ گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو مساجد مسمار کی گئی ہیں وہ دوبارہ بنا کر انہی مولویوں کو واپس کی جائیں جنہوں نے قبضہ تھا۔
وفاق المدارس کی مصالحت سے یہ شرط بھی مان لی گئی بلکہ ایک مسمار کی گئی مسجد کی دوبارہ تعمیر بھی شروع کر دی گئی۔ اس پر بجائے رکنے وہ کے وہ مزید شیر ہوگئے۔
27 مارچ 2007 کو لال مسجد کی لٹھ بردار طالبات نے 3 خواتین کو فحاشی کے الزام میں اغواء کر لیا۔ پولیس پہنچی تو چند پولیس والے بھی اغواء کر لیے۔ ایک آدھ دن حبس بےجا میں رکھنے کے بعد ان کو چھوڑ دیا۔
6 اپریل کو مولوی عبدالعزیز نے اپنی مسجد میں شرعی عدالت کا اعلان کر دیا اور پاکستانی عدالتوں کو کلعدم قرار دے دیا۔ لوگوں سے کہا کہ اپنے مقدمات لال مسجد لایا کریں۔ یہیں پر مجرموں کو شرعی سزائیں دی جائنگی۔ ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر حکومت نے اس کو بند کرنے کی کوشش کی تو لال مسجد کے طلبا (دہشتگرد) پاکستان بھر میں ہزاروں خود کش حملے کرینگے۔
18 مئی 2007 کو لال مسجد والوں نے پھر چار پولیس والوں کو اغوا کیا، مارا پیٹا اور لال مسجد میں بند کر دیا۔ پولیس نے مزاکرات کر کے ان کو چھڑایا۔
23 جون 2007ء کو جامعہ حفصہ کی طالبات نے 10 چینی باشندوں بشمول خواتین اور کچھ دیگر لوگوں کو اغواء کیا اور ان کو مارا پیٹا۔ اہم بات یہ ہے کہ چینی باشندوں کو عین اس وقت اغواء کیا گیا جب ایک دن بعد آفتاب شیر پاو چین کے اہم ترین دورے پر جانے والے تھے۔ چین نے احتجاج کیا اور چینی سفیر کے دباؤ پر منتیں ترلے کر کے ان کو چھڑایا گیا۔ اس وقت پاکستانی اداروں کو یقین ہوگیا کہ لال مسجد کے ڈانڈے وزیرستان سے ہوتے ہوئے انڈیا تک جارہے ہیں۔
ملک بھر میں پرویز مشرف پر تنقید ہونے لگی کہ وہ ضرورت سے زیادہ نرمی سے کام لے رہے ہیں اور ان پر لال مسجد والوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔ جس کے بعد پولیس کی مدد کے لیے لال مسجد رینجرز بھیجی گئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ غیر قانونی اور قابض جگہ پر تعمیر کردہ مساجد غیر قانونی ہوتی ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
آپریشن سائلنس[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
رینجرز پہنچی تو لال مسجد کے میناروں سے ان پر گولیاں چلائی گئیں اور ایک سپاہی سینے میں گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔ ایک رینجر سپاہی کی ٹانگ پر گولی لگی۔ ام حسان اور عبدالرشید نے موقف اختیار کیا کہ ہمارے ایک "بچے" نے بغیر اجازت کے گولی ماری ہے اور ہمارے 'بچوں' کو اشتعال نہ دلایا جائے۔ لیکن اپنی شرعی عدالت میں اس "بچے" پر کوئی حد نافذ نہ کی۔
3 جولائی کو بڑی تعداد میں ڈنڈا بردار طالبات باہر نکلیں اور عینی شاہدین کے مطابق رینجرز والوں سے وائرلس سیٹ اور ہتھیار چھین لیے۔ پولیس نے آنسو گیس پھینک کر رینجرز کی جان چھڑائی۔
رینجرز کو ایکشن کا حکم نہ تھا لہذا وہ بےبس رہی اور مسجد انتظامیہ نے ایک بار پھر 'عورت کارڈ' کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
اس کے بعد ڈیڑھ سو کے قریب طالبات اور طالبان نے محکمہ موسمیات کی عمارت پہ حملہ کر دیا اور وہاں آتے جاتے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی اور وہاں سلفر بم پھینکے جس سے وہاں آگ لگ گئی۔
یہ وہ حملہ تھا جب کے بعد پہلی بار پولیس اور رینجرز نے جوابی کاروائی کی اور 9 ہلاکتیں ہوئیں۔ جن میں 4 مسجد کے حملہ آور اور 5 وہ سولینز جو لال مسجد والوں کی اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنے تھے۔
فوراً علاقہ خالی کروا لیا گیا۔ مسجد کے گرد کانٹا تار بچھائی جانے لگی اور حکم ملا کہ اب کوئی ہتھیار کے ساتھ مسجد سے نکلے تو گرفتار کریں اگر وہ فائرنگ کرے تو اسے گولی ماری جائے۔ پاک فوج کو طلب کر لیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی لاؤڈ سپیکر پر حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ سرنڈر کرنے والی طالبات اور طلبا کو فی کس 5 ہزار روپے وظیفہ اور مفت تعلیم دی جائیگی۔ نیز طالبات کو بغیر کسی چیکنگ کے گھروں کو پہنچایا جائیگا۔ بصورت دیگر حکومت آپریشن کرے گی۔
4 جولائی 2007 کو دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ حکومت بار بار آپریشن کی ڈیڈ لائن آگے بڑھاتی رہی اور سرنڈر کرنے کی اپیلیں کرتی رہی۔ ساتھ ہی مسجد کے ارد گرد کرفیو لگا دیا گیا۔ تاکہ مزید سولینز مسجد سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ نہ بنیں۔
5 جولائی کو مسجد کے ارد گرد دھماکے کیے گئے تاکہ لوگ خوفزدہ ہوکر نکل آئیں۔ اس دوران ایک بار پھر ڈیڈ لائن آگے بڑھائی گئی۔ کیونکہ پاک فوج کسی بھی صورت مسجد میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ان دھماکوں کے کچھ دیر بعد لڑکیوں کا ایک جھرمٹ باہر نکلا جن کو حسب معمول چیک نہیں کیا گیا۔ لیکن بیچ میں چلنے والی ایک لڑکی کے نقاب سے داڑھی نظر آرہی تھی۔ اس پر ایک خاتون پولیس افسر کی نظر پڑ گئی اور اس نے اس کو چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مولانا عبدالعزیز ثابت ہوا جو برقعہ پہن کر بھاگ رہا تھا۔ وہی عبدالعزیز جو بچیوں کو شریعت یا شہادت کی پٹیاں پڑھاتا رہا اور جس نے دعوی کیا تھا کہ میں نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا ہے اور ان کی ہدایت پر یہ سب کر رہا ہوں۔(نعوذبااللہ) اس کو گرفتار کرلیا گیا۔
عبدالعزیز کے اس شرمناک فرار اور یوں برقعہ میں گرفتاری پر 800 کے قریب طلبا اور 400 طالبات نے سرنڈر کر دیا۔
6 جولائی کو ایک بار پھر حکومتی وفد نے مسجد والوں سے بات چیت کی۔ لیکن وہ باہر آئے تو کچھ ہی دیر بعد لال مسجد سے سکیورٹی اہلکاروں پر پھر سے فائرنگ کی گئی۔ اسی شام جیو نیوز کے لائیو پروگرام میں عبدالرشید اپنی شرائط سے دوبارہ پھر گیا۔ سب کو یقین ہوگیا کہ مسجد کا کنٹرول خارجیوں کے پاس ہے اور وہ اپنی حفاظت کی شرط منوائے بغیر کسی صورت مزاکرات نہیں ہونے دینگے۔
غازی عبدالرشید کی ایک ہی رٹ تھی کہ میرے "مجاہدین" ساتھیوں (وزیرستانی دہشتگردوں) سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی نہ ان کو کوئی ہاتھ لگائیگا۔ وہ جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس جانے دیا جائیگا اور میری ماں بیمار ہے اس کا علاج کیا جائیگا۔ ماں کے علاج کا وعدہ کیا گیا لیکن دہشتگردوں کو چھوڑنے پر حکومت تیار نہ تھی۔ اس دوران 21 مزید طلباء نے سرنڈر کیا۔ ساتھ ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا اور 2 مزید خارجی ہلاک ہوگئے۔
اس دوران پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز پہنچ گئے۔ لال مسجد سے ہونے والی بھاری گولہ باری میں کمانڈو دستے کو لیڈ کرنے والے کرنل ہارون اسلام شدید زخمی ہوگئے اور دو دن بعد شہید ہوگیے۔
6 جولائی کو ہی لال مسجد سے تعلق رکھنے والے ایک خارجی نے پرویز مشرف کے جہاز کو راولپنڈی کے ایک گھر سے اینٹی ائر کرافٹ گن سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ پرویز مشرف فیصلہ کن آپریشن کو مسلسل موخر کرتے رہے۔
7 جولائی کو سخت مزاحمت کے بعد کمانڈوز کو لال مسجد کی دیواروں تک رسائی مل گئی۔ انہوں نے مسجد کی دیواروں میں سوراخ کیے تاکہ خواتین یا بچوں کو فرار کی راہ مل سکے۔ اسی دوران ان سوراخوں سے ایک 13 سالہ لڑکا نکل کر بھاگا جس کو فوراً ریسکیو کر لیا گیا۔ لڑکے نے انکشاف کیا کہ اس کو مسجد میں زبردستی روکا گیا تھا۔ اس دوران حکومت مسلسل دہشتگردوں سے سرنڈر کی اپیلیں کرتی رہی۔
پاکستان کی درخواست پر مفتی اعظم اور امام کعبہ شیخ عبدالرحمان سے بھی اپیل کرائی گئی اور مولانا طارق جمیل نے بھی اپیل کی کہ سرنڈر کریں قانون ہاتھ میں نہ لیں، مسجد اور خواتین کو مورچے نہ بنائیں۔
9 جوالای کو فن لینڈ نے پاکستان می اپنا سفارت خانہ بند کر دیا اور دیگر ممالک نے بھی اپنی تشویش ظاہر کی۔
10 جولائی کو چودھری شجاعت حسین اور اعجازالحق نے آخر کار مزاکرات کی ناکامی کا اعلان کیا۔ اسی دن انٹلیجنس اداروں نے رپورٹ پیش کی کہ مسجد پر کم از کم 100 دہشتگرد قابض ہیں۔ غازی عبدالرشید نے دھمکی دی کہ ہمارے پاس اتنا اسلحہ اور گولہ بارود ہے کہ ہم ایک مہینہ تک جنگ جاری رکھ سکتے ہیں۔
جس پر آرمی نے ایک آخری بار ایمبولنس میں کھانے پینے کا سامان بھیجا اور لال مسجد انتظامیہ سے کہا کہ سرنڈر کریں یا کم از کم خواتین اور بچوں کو باہر بھیج دیں۔ یہ اپیل کر دی گئی۔ اسی دن کمانڈوز نے پیش قدمی کا فیصلہ کیا۔ مسجد کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسجد کے اندر سے جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی جارہی تھی۔
فوج کو گرنیڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملی تھی اور آنسو گیس کا خارجیوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا کیونکہ سب نے گیس ماسک پہن رکھے تھے۔ دہشتگردوں نے بڑی تعداد میں گیسولین بم اور سلفر بم استعمال کیے جو ہر چیز کو جلا دیتے ہیں۔
مسجد کے میناروں سے خاص طور پر کمانڈوز کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور کئی شہادتیں ہوئیں۔ لیکن مسجد کا گراؤنڈ فلور صاف کر دیا گیا۔ وہاں موجود 30 بچے اور خواتین دوڑ کر پاک فوج کی جانب آئیں جن کو فوراً محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
اس دن ایس ایس جی کے 30 زخمی ہونے والوں میں سے 19 دہشتگردوں کے پھینکے گئے گرنیڈوں سے زخمی ہوئے۔ اس دوران پاک فوج پر دو خود کش حملے بھی کیے گئے۔
باقی رہ جانے والے دہشتگرد مسجد کے تہہ خانوں میں چلے گئے اور وہاںطالبات کو اپنی ڈھال بنا لیا۔ عبدالرشید نے آخری بیان دیا کہ ہمارے 30 مجاہدین ابھی باقی ہیں اور میری ماں زخمی ہے۔ حکومت ہمارے خلاف پوری طاقت استعمال کر رہی ہے۔
بیسمنٹ پر آپریشن شروع ہوا تو غازی عبدالرشید ہاتھ اٹھائے باہر نکلا۔ تب ان ک پشت پر فائرنگ کر کے اس کے ساتھیوں نے اس کو ہلاک کر دیا۔ بیسمنٹ میں موجود دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا گیا اور باقی رہ جانے والی طالبات کو ریسکیو کر لیا گیا۔
11 جولائی کو مسجد دہشتگردوں سے صاف ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس آپریشن میں پاک فوج کے 11 جوان شہید اور 33 زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں 10 ایس ایس جی کمانڈوز تھے جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی آپریشن میں شہید ہونے والے کمانڈوز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
91 دہشتگرد ہلاک کیے گئے۔ ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں مصری، ازبک اور عرب بھی شامل تھے۔ 19 لاشیں ناقابل شناخت تھیں لیکن ان میں خاتون کوئی نہیں تھی۔
3 جولائی سے 11 جولائی کے درمیان 628 مرد اور 465 خواتین اور 3 بچوں کو دہشتگردوں کے چنگل سے چھڑایا گیا۔
دہشتگردوں کے قبضے سے راکٹ لانچرز، دستی بم، اینٹی ٹینک شکن ہتھیار، نائٹ وژن گاگلز، بارودی سرنگیں، خود کش جیکٹیں، بم پروف جیکٹیں اور بڑی تعداد میں بندوقیں اور پستول برآمد ہوئے۔ 36 گھنٹے صرف ان بوبی ٹریپس کو صاف کرنے میں لگے جو دہشتگردوں نے مسجد میں لگائی تھیں۔
اس کے علاوہ مسجد سے ایمن اظواہری کے خطوط بھی برآمد ہوئے جن میں غازی برادران کو پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کی تلقین تھی۔
یہ آپریشن مسلسل 18 ماہ کے مزاکرات کے بعد کیا گیا تھا۔
آپریشن کے بعد[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
11 جولائی کو ایمن اظواہری نے پاکستان کے خلاف ایک ویڈیو بیان کے ذریعے اعلان جہاد کر دیا۔
لال مسجد آپریشن کو جواز بنا کر پورے پاکستان میں دہشتگردوں اور ان کے حامیوں نے پاک فوج پر حملے شروع کر دئیے۔ پاکستان کے خلاف جہاد کو فرض قرار دیا۔ 12 اور 14 جولائی کو پاک فوج پر 3 خودکش حملے کیے گئے۔
6 جولائی 2008 کو پولیس پر لال مسجد کے قریب ایک اور حملہ ہوا، کئی جانیں گئیں، جسے طالبان نے لال مسجد کے ہی تربیت یافتہ طلباء کا انتقام قرار دیا۔
لال مسجد کو 15 دن کے اندر اندر دوبارہ بنا کر نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا۔
ہلاک ہونے والوں کے ورثا کے لیے معاؤضوں کا اعلان کیا گیا۔ قبضہ کر کے بنائی گئی جامعہ حفصہ کی جگہ متبادل جگہ دینے کا اعلان کیا گیا۔
عدلیہ کا کردار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
آپریشن کے ایک ماہ بعد 16 اگست 2007ء کو سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا کہ مسجد میں جنگ کر کے دہشتگردوں کو مارنا ماورائے عدالت قتل تھا۔ اسی سوموٹو پر بدنام زمانہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے لال مسجد آپریشن پر عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا اور قتل ہونے والے دہشتگردوں کی طرف سے آپریشن کرنے والے کے خلاف مقدمات درج کرنے کا حکم دیا۔
افتحار چودھری تب سویا ہوا تھا جب لال مسجد والوں اپنی عدالت لگا کر پاکستان کی تمام عدالتوں کو کلعدم قرار دیا۔ زمینوں پر قبضے کیے اور لوگوں کو اغواء اور قتل کرنا شروع کیا۔
افتخار چودھری کے حکم پر وہ تمام طلبا بھی رہا کر دئیے گئے جن کے بارے میں اطلاع تھی کہ وہ وزیرستان سے تربت پاچکے ہیں۔ ان طلباء نے بعد میں پورے پاکستان میں خود کش حملے کیے۔
وکلاء لاہور بار کے صدر نے بھی لال مسجد والوں کے حق میں بیان دیا۔
لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کرنے پر اکتوبر 2013ء کو ن لیگی جج شوکت عزیز صدیقی نے پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح فروری 2016 کو ایک اور جج نے عبدالرشید کے قتل کے جرم میں پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کیا۔ وہی عبدالرشید جو ایک ماہ تک فوج سے جنگ کرنے کے اعلانات کرتا رہا۔
لال مسجد آپریشن کے مرکزی کردار اور سب سے بڑے فسادی مولانا عبدالعزیز کے خلاف جتنے بھی مقدمات محتلف عدالتوں میں چلائے گئے عدلیہ نے ان سب میں ان کو باعزت بری کر دیا۔
میڈیا کا کردار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
لال مسجد کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا۔ پہلے مدرسہ کی طالبات اور ملاؤوں کی ایسی تشہیر کی گئی جیسے وہ بہت شیر دل ہیں۔ لڑکیوں کے انٹرویوز کیے جانے لگے۔ انہیں لگنے لگا کہ وہ درحقیقت میں کوئی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔
جنگ اخبار نے پولیس والوں کو بکری اور لڑکیوں کو شیر کے روپ میں کارٹوں بنا کر شائع کیا۔
جب انہوں نے لوگوں کو مارنا اور اغواء کرنا شروع کیا، ایک کیمرہ مین مار دیا اور مارکیٹوں میں آگ لگانے لگے تو سارا میڈیا ریاست کی رٹ پر سوالات اٹھانے لگا۔ بےنظیر بھٹو کے کالمز چھاپے گئے جس میں مشرف پر تنقید کی گئی تھی کہ اسلام آباد پر دہشتگرد قابض ہوگئے ہیں اور وہ بےبس ہے۔
لیکن جب پاک فوج نے ہر حد تک صبر کر لینے کے بعد آپریشن کیا تو اسی میڈیا نے "لال مسجد کی بچیاں" کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔
ن لیگ کے حامی صحافیوں نے پرویز مشرف کو ایک ایسے بے رحم اور سفاک حکمران کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا جس نے اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر "معصوم" پچیوں کا قتل عام کیا۔ یہ پروپیگنڈہ اتنا زہر آلود تھا کہ جنرل پرویز مشرف بےچارہ ہزار صفائیاں اور ثبوت پیش کرنے کے بعد بھی آج تک اس الزام سے بری نہ ہوسکا۔
مشرف مخالف اینکر حامد میر نے کچھ عرصہ بعد انکشاف کیا کہ لال مسجد پر درحقیقت وہاں موجود دہشتگردوں کا کنٹرول تھا اور غازی برادران ان کے ہاتھوں میں یرغمال تھے۔
ساتھ ہی الزام لگایا کہ وہ دہشتگرد مشرف کے بندے تھے۔ یعنی ان 91 دہشتگردوں نے مشرف کے لیے اپنی جانیں دے دیں؟؟
لال مسجد کمیشن رپورٹ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
لال مسجد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق لال مسجد اپریشن میں 103 افراد ہلاک ہوئے جن میں کوئی بھی خا تون نہیں تھی ۔92 افراد سویلین تھے جبکہ11 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔ 16 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔ 6 ماہ تک جاری رہنے والی اس انکوائری میں ہلاکتوں کے حو الے سے مختلف رپورٹیں جمع کروائی گئی تھیں جن کی روشنی میں کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ لال مسجد اپریشن میں ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی خا تون شامل نہیں تھی۔
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لال مسجد اپریشن کو بنیاد بنا کر بہت سی سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنی دوکانداری چمکاتی رہیں اور اگر یہ تسلیم کر لیتیں کہ کوئی خاتون یا بچی ہلاک نہیں ہوئی تو ان کا چورن کیسے بکتا؟
یاد رکھیں یہ مشرف مخالف جج افتخار چودھری کے حکم پر بنایا گیا عدالتی کمیشن تھا جس میں مشرف کا ہمدرد کوئی نہیں تھا لیکن مخالفین بہت سے تھے کیونکہ ان دنوں مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک بھی چل رہی تھی۔
کچھ دعوے، اعتراضات اور سوالات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
اعتراض ۔۔۔ حکومت نے مزاکرات کیوں نہ کیے؟؟
جواب ۔۔۔ زمین پر قبضے، پولیس والوں کو اغواء کرنے، لوگوں کی مارنے، دکانوں کو آگ لگانے، فوج کے خلاف فتوے جاری کرنے، غیر ملکیوں کو اغواء کرنے اور دہشتگردوں کو مسجد میں جمع کرنے کے باؤجود حکومت مسلسل 18 ماہ تک مزاکرات کرتی رہی۔ فوج کی جگہ پولیس کی مدد سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ حتی کہ ان کے ناجائز قبضے کو بھی تسلیم کرنے پر تیار ہوگئی۔
اعتراض ۔۔ فوج نے سینکڑوں طالبات اور بچوں کو مارا۔
جواب ۔۔ فوج نے عورتوں کو مروانا ہوتا تو اپنے 10 کمانڈوز کیوں شہید کراتی؟ بمباری کر کے مسجد کے اندر ہی سب کو مروا دیتی۔ فوج کو تو دوران آپریشن بھی ہینڈ گرنیڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی کہ اگر عورتیں اور بچے اندر ہوں تو وہ بچ سکیں۔
سچ یہ ہے کہ صرف وہی دہشتگرد ہلاک ہوئے جن کو ام حسان "ہمارے باہر کے مجاہدین بھائی" کہا کرتی تھی جو مسجد پر قابض تھے۔
ایک دو بار مشرف نے چیلنج بھی کیا تھا کہ عبدالعزیز قرآن پر قسم کھا لے کہ ان 91 یا 92 دہشتگردوں کے سوا مسجد میں کوئی ہلاک ہوا ہے اور عبدالعزیز نے یہ قسم کبھی نہیں کھائی۔ (گو کہ مولوی ہے اور کوئی بھی شرعی دلیل گڑھ کر جھوٹی قسم کھا سکتا ہے)
مولانا عبدالعزیز کا میڈیا پر دیا ہوا ایک بیان بھی سرکولیٹ ہوا تھا جس میں اس نے خود اعتراف کیا تھا کہ لال مسجد میں مرنےوالوں کی کل تعداد 94 یا 95 تھی اور ان کی والدہ بھی آپریشن میں نہیں بلکہ آپریشن سے ایک دن پہلے طبی وجوہات کی بناء پر انتقال کر گئی تھیں۔
جامعہ میں موجود طلباء کے ریکارڈ سے بھی معلوم ہوا کہ بچائے گئے طلباء کا ریکارڈ جامعہ کے ریکارڈ کے مطابق ہے اور سینکڑوں طلباء یا طالبات کے ہلاکت کی خبر غلط ہے۔ سب سے بڑھ کر عدالتی کمشین نے بھی 6 ماہ کی انکوائری کے بعد یہی رپورٹ پیش کی کہ کوئی ایک بھی بچی لال مسجد آپریشن میں نہیں ماری گئی سوائے ان خارجیوں کے۔
لال مسجد آپریشن میں جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بچیوں کی ہلاکت کی باتیں صرف اور صرف جھوٹ کا پلندہ ہیں جو آج بھی نہایت بےشرمی سے بولا جاتا ہے۔
دعوی ۔۔۔ لال مسجد والے کہتے ہیں کہ ہماری جنگ بےحیائی کے خلاف اور شریعت نافذ کرنے کے لیے تھی۔
جواب ۔۔ یہ بےحیائی سی ڈی اے کے نوٹس سے پہلے کیوں نظر نہ آئی؟ اپنے اس "معصوم" بچے پر شریعت کیوں نافذ نہ کی جس نے آپریشن سے پہلے ایک رینجر سپاہی کو شہید کر دیا تھا؟؟
دعوی ۔۔ مسجد میں کوئی دہشتگرد نہ تھے۔
جواب ۔۔ اگر دہشتگرد نہ تھے تو پورے ملک میں ہزاروں خودکش حملے کس نے کرنے تھے جنکا غازی برادران اعلان کیا تھا؟
ام حسان جن کو ٹی وی پی بار بار اپنے مجاہدین بھائی کہتی رہی وہ کون تھے؟
فوج سے تین دن تک جنگ کس نے کی؟
عبدالرشید کن لوگوں کی محفوظ واپسی کا مطالبہ کرتے رہے اگر سب مسجد کے طلباء تھے؟
اتنے بھاری اور بےشمار ہتھیار کہاں سے آئے؟
وہ بنکرز کیوں بنائے گئے جن کی کھدائی میں مہینوں لگتے ہیں؟
عبدالرشید نے کس بنیاد پر دعوی کیا کہ ہمارے پاس اتنے ہتھیار ہیں کہ ہم ایک مہینہ تک لڑ سکتے ہیں؟
دعوی ۔۔ عبدالعزیز کو برقعہ زبردستی پہنایا گیا۔
جواب ۔۔ اب تو وہ خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ برقعہ میں نے خود پہنا تھا بھیس بدلنے کے لیے اور بھیس بدلنا شرعاً جائز ہے۔ لہذا اعتراض یہ رہ جاتا ہے کہ جب خود لڑکی بن کر بھاگنا تھا تو باقیوں کو کیوں 'شریعت یا شہادت' پر اکساتے رہے؟
نیز یہ جھوٹ کیوں بولا تھا کہ برقعہ زبردستی پہنایا گیا تھا؟ خیر اس کا بھی کوئی 'شرعی'جواز بنایا جاسکتا ہے۔
خلاصہ [ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
لال مسجد والوں کی جنگ اسلام کی نہیں زمین پر قبضے کی جنگ تھی۔ جسے میڈیا نے بڑھاوا دیا۔ اس جنگ کو اسلام کا نام دے کر پورے ملک میں آگ لگائی گئی۔
مزاکرات کی ناکامی وجہ سے وہ وزیرستانی دہشتگرد تھے جنہوں نے مسجد کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور وہ ہر صورت اپنی محفوظ واپسی چاہتے تھے۔ مسجد میں پڑھنے والے بچیوں کے بہت سے لواحقین نے بیان دیا تھا کہ ان کی بچیوں کو مسجد پر قابض دہشتگردوں نے زبردستی روکے رکھا اور بعض لواحقین کو مارا پیٹا بھی گیا۔ اس آپریشن میں کوئی بچی نہیں ماری گئی تھی۔
آج بھی لال مسجد والے ایچ 8 میں زمین کے لیے ہی آئے دن ڈرامے کرتے رہتے ہیں اور کچھ دن پہلے پھر فرما رہے تھے کہ اگر ہمیں ایچ 8 میں 20 کنال کا پلاٹ نہیں دیا گیا تو ہم دوبارہ 'نفاذ شریعت' کی مہم چلا دینگے۔
دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
جامعہ فریدیہ لال مسجد کے ایک بزرگ استاد کا مولانا عبد العزیز کے نام ایک کھلا خط سوشل میڈیا کی زینت بنا جس میں عبدالعزیز پر کئی الزامات لگائے گئے تھے۔ اس خط میں اس نے جامعہ سے استعفی دیا تھا۔ [1]