کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ

Shahidlogs سے

دھاندلی کے حوالے سے دعوی

الیکشن 2024 کے حوالے سے کمشنر راولپنڈی ڈیوژن لیاقت علی چٹھہ نے دعوی کیا کہ 'میں راولپنڈی ڈیوژن میں انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور ہم نے ستر ستر ہزار کی لیڈ سے ہارنے والے امیدواروں کو جتوا دیا۔ میں تو خودکشی کرنے والا تھا۔ اس قبیح عمل میں الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس انوالو ہیں۔'

ساتھ ہی انہوں نے استعفی دے دیا۔

شک و شبہ پیدا کرنے والے حقائق

کمشنر لیاقت علی چٹھہ مارچ کے شروع میں یعنی چند دن بعد ہی ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔

موصوف نے یہ دعوی الیکشن ہونے کے 10 دن بعد کیا۔

6 فروری کو ان کی پروموش کے لیے بورڈ بیٹھنا تھا۔ وہ بورڈ پھر الیکشنز کے بعد بیٹھا۔ 3 دن پہلے ان کو مزید پروموشن نہ دینے کا فیصلہ ہوا جس پر وہ کافی مایوس تھے۔ ان کی فیملی کے مطابق وہ بتا رہے تھے کہ انہیں تین سال کی ایکسٹینشن مل رہی ہے اور نہ ملنے پر کافی مایوس ہوگئے تھے۔ [1]

محض چار دن پہلے کمشنر راولپنڈی نے امریکہ کا ویزہ لگوایا۔ [2]

لیاقت علی چٹھہ کو زیادہ تر ترقیاں اور اہم تقرریاں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عثمان بزدار کے دور میں ملیں۔ [3]

پی ٹی آئی نے ان کو ڈی جی ھاؤسنگ پنجاب لگایا۔ تب اسکی زیرنگرانی 'نیا پاکستان'  نامی ھاؤسنگ منصوبے میں بہت ہیر پھیر کی گئی۔

لیاقت علی چٹھہ پی ٹی آئی کے پرجوش سپورٹر ہیں۔

بیٹی کی شادی پر کروڑوں روپے خرچ کیے اور الرحمان ہاؤسنگ کے مالک میاں مشتاق اور تحریک انصاف کا میاں اسلم اقبال شادی کے اخراجات ادا کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ [4] [5]

لیاقت علی چٹھہ کی بہو برطانوی نیشنل ہیں جہاں وہ پی ٹی آئی کے مظاہروں میں باقاعدہ سے شریک ہوتی ہیں۔ [6] [7]

کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھٹہ پی ٹی آئی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے MNA احمد چٹھہ کے کزن ہیں۔ [8]

ملک ریاض سے ان کے قریبی روابط ہیں۔ [9] کئی سوشل میڈیا صارفین نے تبصرہ کیا کہ ملک ریاض کے 190 ملین پاؤنڈ موجودہ چیف جسٹس نے واپس قومی خزانے میں جمع کروائے۔ لہذا وہ 190 ملین پاؤنڈ اب ملک ریاض کو سپریم کورٹ میں جمع کروانے پڑینگے۔ کمشنر چٹھہ نے چیف جسٹس کا نام ملک ریاض کے ایما پر لیا۔

الرحمن گارڈن میں 1000 سے زیادہ فائلوں کی سرمایہ کاری کر کے اپنا کالا دھن بھی سفید کر چکے ہیں۔

ان پر انکوائریز چل رہی ہیں۔ جن میں سے ایک لاہور کے قریب ایک سوسائیٹی کے حوالے سے ہیں جو انکی سمدھی کی ہیں۔ الزام ہے کہ یہ اس سوسائیٹی میں پارٹنر ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ جہاں بھی وہ تعئنات رہے وہاں انہوں نے جم خانے بنائے۔ ڈیولپمنٹ پراجیکٹس میں بےضابطگیوں کی بھی تھی۔ [10]

یہ انتخابی عمل میں براہ راست ملوث نہیں تھے، نہ آر او تھے، نہ ڈی آر او اور نہ ہی پریزائڈنگ افسر۔ نہ ہی یہ لوگ اس کے ماتحت تھے۔

راولپنڈی میں کسی کو بھی 70 ہزار کی لیڈ نہیں ملی تھی جیسا کہ کمشنر نے دعوی کیا تھا۔

انکو نفسیاتی مسائل بھی ہیں اور یہ سکون کی دوائیاں کھاتے ہیں۔

جاوید چودھری سے فون پر بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ میں نے دو تین مرتبہ خودکشی کی کوشش کی۔ [11]

سوالات

کمشنر راولپنڈی کے الیکنشز کے حوالے سے دعوے پر کئی سوالات اٹھے۔ جو درج ذیل ہیں۔

کمشنر موصوف نے یہ غیرت تب کیوں نہ دیکھائی جب بقول ان کے انکو یہ 'آرڈرز' ملے تھے؟ تب ہی کیوں دیکھائی جب ان کو مزید ترقی نہ دینے کا فیصلہ ہوا؟

یہ گتنی کے عمل میں کس طرح شامل تھے؟ اس عمل میں ریٹرننگ آفیسرز اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز ملوث ہوتے ہیں۔ پریزائڈنگ آفیسرز فارم 45 تیار کرتے ہیں۔ ریٹرننگ آفیسرز ان فارم 45 کو جمع کر کے انکی بنیاد پر فیصلہ سناتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر بھی اس میں ملوث نہیں ہوتا۔ تو کمشنر نے کیسے یہ سب کرایا؟

اس نے کس کس کو اور کیسے اور کس حیثیت میں دھاندلی کرنے کے احکامات جاری کیے؟؟

اگر دھاندلی ہوئی تو فارم 45 پر تمام پارٹیوں کے دستخط اور انگھوٹے کیوں لگے اور پی ٹی آئی نے جعلی فارم 45 کیوں بنائے؟؟

ڈراپ سین

کمشنر لیاقت علی چھٹہ نے اچانک نمودار ہوکر معافی مانگ لی اور اعتراف کیا کہ میں نے یہ سارا ڈرامہ پی ٹی آئی کے کہنے پر کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ میرا انتخابی عمل پر براہ راست کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جس پی ٹی آئی راہنما کے کہنے پر میں نے یہ سب کیا وہ 9 مئی حملوں میں اشتہاری ہے۔ [12]

لیاقت علی چٹھہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ مجھے پی ٹی آئی نے عہدے کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ نیز میں نے پی ٹی آئی کی اعلی قیادت یعنی عمران خان کے کہنے پر چیف جسٹس کا نام لیا تھا۔ [13]

دیگر

کشمنر لیاقت علی چٹھہ کے الزامات پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ردعمل دیا کہ کمشنر بیان حلفی جمع کرائیں اور اپنے الزامات کے حق میں ثبوت فراہم کریں۔ [14]

الیکشن کمیشن اور تمام آر اوز نے بھی کمشنر کا دعوی مسترد کیا۔

انکی سوشل میڈیا پر زرتاج گل اور کئی دیگر پی ٹی آئی راہنماؤں کے ساتھ تصاویر بھی وائرل ہوئیں۔ [15]

پی ٹی آئی نے مریم نواز کی 2022ء کی ٹویٹ بھی وائرل کی۔ [16]

کمشنر راولپنڈی دھاندلی کا اعتراف کرنے کے بعد غائب ہوگئے۔ جس کے بعد شبہ کیا گیا کہ یا ان کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے یا پھر وہ خود روپوش ہوگئے ہیں۔

مبینہ طور پر کمشنر لیاقت علی چٹھہ سے فون لیا گیا تھا جس کا فرانزک کروانے پر اس کا سارا کچہ چٹھہ کھل گیا تھا۔

حوالہ جات