خان عبدالغفار خان عرف باچا خان
خان عبدالغفار خان عرف باچا خان نے ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے مسٹر دلیپ کو انٹریو دیتے ہوئے کہا "چند سال پہلے کا پاکستان اب مر چکا ہے۔ مغربی پاکستان میں چار قومیتوں کے درمیان رشتے کے لیے محض اسلام کافی نہیں رہے گا۔ اس کےلیے سیکولر بنیادوں پر رشتے کی تعمیر کرنی ہوگی۔"
1969ء میں جب وہ کابل گئے تو انہوں نے وہاں کہا "میں نے دو قومی نظریہ کبھی تسلیم نہیں کیا نہ ہی ایسا کبھی کرونگا۔ مذہب معیار کس طرح ہو سکتا ہے؟ میں افغانستان کے باشندوں کو بھی کہتا رہا ہوں اور دوسروں کو بھی کہ اسلام دنیا میں انسان کے بعد آیا ہے۔ جب اسلام اور کوئی اور مذہب اس دنیا میں نہیں آیا تھا تو اس وقت بھی یہاں انسان بستے تھے"۔
( سٹیٹمین 16 اکتوبر 1969ء بحوالہ پاکستان ٹائمز 19-3-1973ء )
باچا خان کے صاحبزادے خان عبدلولی خان نے اعلان فرمایا "دو قومی نظریہ ختم ہو چکا ہے۔ اسلام کی باتیں ڈیڑھ ہزار سال پرانی اور فرسودہ ہیں۔ 25 سال کے تجربے نے ثابت کر دیا کہ نظریہ پاکستان غلط تھا۔"
اسی جماعت کے مشہور راہنما حاجی عدیل نے ببانگ دہل کہا "محمد بن قاسم غاصب اور ڈاکو تھا اور ہمارا ہیرو راجہ داہر ہے۔"
( نوائے وقت 13 اکتوبر 1972ء )
باچا خان نے اپنی بھتیجی اور ڈاکٹر خان کی بیٹی مریم خان کی شادی ایک سکھ لیفٹننٹ جسونت سنگھ کے ساتھ 1942ء میں کرائی تھی۔ باچا خان نے اس سلسلے میں کسی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور جب اس کو کہا گیا کہ یہ شادی شرعاً بھی جائز نہیں تو موصوف نے جواب دیا تھا کہ میں مذاہب کی ایسی پابندیاں نہیں مانتا۔
موصوف نے بڑے فخر سے اپنی کتاب میں تمام پشتونوں کو ہندؤوں کی اولاد لکھا ہے۔