جنرل باجوہ
مونس الہی نے بیان دیا کہ جنرل باجوہ نے ہمیں کہا تھا کہ عمران خان کو ووٹ دیں۔ ورنہ وہ پنجاب کے لیے ن لیگ کی دعوت تسلیم کر چکے تھے۔ لیکن جاوید چودھری کے مطابق جنرل باجوہ نے مجھے کہا تھا کہ میں نے نہ پرویز الہی کو ن لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا نہ ہی عمران خان کے ساتھ دینے کا۔ [1]
جب عمران خان اعتماد کا ووٹ لے رہے تھے تو جنرل باجوہ کے بقول ہم 48 گھنٹے نہیں سوئے۔ ایسے لوگوں کو لایا گیا جو عمران خان کو ووٹ دینے کو تیار نہ تھے۔ اس حوالے سے بی بی بھروانہ، چودھری شجاعت کے بیٹے چودھری سالک، طارق بشیر چیمہ اور عامر لیاقت کو تقریباً زبردستی لایا گیا۔ عامر لیاقت حسین نے یہ بات پارلیمنٹ میں بھی کہی کہ مجھے لایا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے گھروں میں پاک فوج کے لوگ گئے تھے۔ ناراض لوگوں کو کنٹینرز میں لاک کیا گیا تھا اور انکو وہیں کھانا دیا جا رہا تھا۔
دیگر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]
جنرل باجوہ نے نیب کے حوالے سے عمران خان کو کہا تھا کہ یہ کبھی نہ کبھی آپ کے خلاف بھی استعمال ہوگا۔ اس کو قابو میں کریں۔ تو عمران خان کہا کرتا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس کو چلنے دیں۔ بعد میں عمران خان کو اسی نیب نے نشانہ بنایا اور جنرل باجوہ کی بات درست ثابت ہوئی۔
پھر جنرل باجوہ نے سے بھی کہا تھا کہ ان سب کو پھانسی نہیں دے سکتے یا غائب نہیں کروا سکتے؟ اس پر جنرل باجوہ نے تحریری حکم مانگا۔ اس پر عمران خان کی ہوا نکل گئی اور کہا کہ میں یہ تحریری حکم کیسے دے سکتا ہوں؟ اس میٹنگ کے چھ سات گواہ موجود ہیں۔ [3] کہا جاتا ہے کہ اسی کو روکنے کے لیے تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی۔